ہیری ریڈ کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے قائدین کی بات چیت اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اور اُنھیں اِس بات کی پوری امید ہے کہ اِسی ہفتے سمجھوتا طے پا جائے گا
صدر براک اوباما نے پیر کی شام کانگریس کے ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن قائدین کے درمیان ہونے والی ملاقات کو مؤخر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کاروبارِ حکومت کی بندش کے خاتمے اور قومی قرضہ جات میں نادہند ہونے سے بچنے کے سلسلے میں بات چیت میں مزید پیش رفت کے لیے درکار مزید وقت دیا جائے۔
سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے قائد، ہیری ریڈ، جن کا تعلق ڈیموکریکٹ جماعت سے ہے، کہا ہے کہ ری پبلیکن قائد، مِچ میکونیل کے ساتھ اُن کی گفتگو میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
ریڈ نے کہا ہے کہ یہ بات چیت اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اُنھیں اس بات کی قوی امید ہے کہ اِسی ہفتے سمجھوتا طے پا جائے گا۔
اِس سے قبل کی اطلاع کے مطابق، امریکی صدر نے کانگریس کے قائدین کا ایک اجلاس وائٹ ہاؤس میں طلب کیا تھا، ایسے میں جب امریکہ مالی ادائگیوں کے معاملے میں نادہندگی کے قریب تر ہے، جِس کے باعث عالمی معیشت پر نقصاندہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن پارٹیوں کے راہنماؤں کی اس ملاقات کی صدارت نائب صدر جو بائیڈن کرنے والے تھے، ایسے میں جب پیر کو کاروبارِ حکومت کی جزوی بندش کا چودھواں روز ہے۔
جمعرات کی ’ڈیڈ لائن‘ ختم ہونے سے قبل، جب تک ملک کے قومی قرضہ جات میں توسیع کی اجازت کا حصول لازم ہے، قانون سازوں کی یہ کوشش ہے کہ حکومتی اخراجات سے متعلق اختلاف رائے کے معاملے کو سلجھایا جائے۔ اِس سلسلے میں ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ اپنی ادائگیاں کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔
ادھر حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث لاکھوں وفاقی ملازمین گھروں میں بیٹھے ہیں جب کہ متعدد سرکاری سروسز محدود یا بند ہو چکی ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں احتجاج کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے جس میں مظاہرین قانون سازوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اُن سے بجٹ سے متعلق سیاسی تعطل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یکم اکتوبر کو شروع ہونے والے مالی سال کے لیے بجٹ کی عدم موجودگی کے باعث نیشنل پارکس بند ہیں، خوارک کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی چھان بین کرنے والے محققین نے اپنا کام بند کر دیا ہے اور حکومت نے معیشت سے متعلق رپورٹوں کا اجراء روک دیا ہے۔
منگل سے یہ شٹ ڈاؤن اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو جائے گا اور امریکیوں کو انفرادی سطح پر اس کے اثرات نظر آئیں گے، مثلاً جائیداد سے متعلق قرض یا انکم ٹیکس کی ادائیگیوں میں تاخیر۔
ان اثرات کی وجہ سے بڑے شہروں بشمول واشنگٹن کے علاوہ چھوٹے قصبوں میں بھی سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔
واشنگٹن میں اتوار کو مظاہرین نے نیشنل مال پر واقع یادگاروں کے گرد کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو اکھاڑ ڈالا۔
مظاہرین کانگریس کی عمارت بھی گئے جہاں اُنھوں نے قانون سازوں پر تنقید کی جو بجٹ پر اتفاق کرنے کی کوششوں میں تاحال ناکام رہے ہیں۔
سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے قائد، ہیری ریڈ، جن کا تعلق ڈیموکریکٹ جماعت سے ہے، کہا ہے کہ ری پبلیکن قائد، مِچ میکونیل کے ساتھ اُن کی گفتگو میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
ریڈ نے کہا ہے کہ یہ بات چیت اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اُنھیں اس بات کی قوی امید ہے کہ اِسی ہفتے سمجھوتا طے پا جائے گا۔
اِس سے قبل کی اطلاع کے مطابق، امریکی صدر نے کانگریس کے قائدین کا ایک اجلاس وائٹ ہاؤس میں طلب کیا تھا، ایسے میں جب امریکہ مالی ادائگیوں کے معاملے میں نادہندگی کے قریب تر ہے، جِس کے باعث عالمی معیشت پر نقصاندہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن پارٹیوں کے راہنماؤں کی اس ملاقات کی صدارت نائب صدر جو بائیڈن کرنے والے تھے، ایسے میں جب پیر کو کاروبارِ حکومت کی جزوی بندش کا چودھواں روز ہے۔
جمعرات کی ’ڈیڈ لائن‘ ختم ہونے سے قبل، جب تک ملک کے قومی قرضہ جات میں توسیع کی اجازت کا حصول لازم ہے، قانون سازوں کی یہ کوشش ہے کہ حکومتی اخراجات سے متعلق اختلاف رائے کے معاملے کو سلجھایا جائے۔ اِس سلسلے میں ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ اپنی ادائگیاں کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔
ادھر حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن کے باعث لاکھوں وفاقی ملازمین گھروں میں بیٹھے ہیں جب کہ متعدد سرکاری سروسز محدود یا بند ہو چکی ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں احتجاج کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے جس میں مظاہرین قانون سازوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اُن سے بجٹ سے متعلق سیاسی تعطل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یکم اکتوبر کو شروع ہونے والے مالی سال کے لیے بجٹ کی عدم موجودگی کے باعث نیشنل پارکس بند ہیں، خوارک کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی چھان بین کرنے والے محققین نے اپنا کام بند کر دیا ہے اور حکومت نے معیشت سے متعلق رپورٹوں کا اجراء روک دیا ہے۔
منگل سے یہ شٹ ڈاؤن اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو جائے گا اور امریکیوں کو انفرادی سطح پر اس کے اثرات نظر آئیں گے، مثلاً جائیداد سے متعلق قرض یا انکم ٹیکس کی ادائیگیوں میں تاخیر۔
ان اثرات کی وجہ سے بڑے شہروں بشمول واشنگٹن کے علاوہ چھوٹے قصبوں میں بھی سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔
واشنگٹن میں اتوار کو مظاہرین نے نیشنل مال پر واقع یادگاروں کے گرد کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو اکھاڑ ڈالا۔
مظاہرین کانگریس کی عمارت بھی گئے جہاں اُنھوں نے قانون سازوں پر تنقید کی جو بجٹ پر اتفاق کرنے کی کوششوں میں تاحال ناکام رہے ہیں۔