سینیٹر جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایشیا پیسفک کے علاقے میں زیادہ فوجیں تعینات کر دی ہیں، اور چین کا رویہ اسی کا رد عمل ہے ۔
محکمہ خارجہ،امریکہ —
چین کی بحری فوج کے جہاز ساؤتھ چائنا سی کے متنازع پانیوں میں گشت کر رہے ہیں۔ فلپائن نے اس علاقے پر چین کے اختیار کو مسترد کر دیا ہے، اور وہ اپنا مقدمہ اقوامِ متحدہ کی عدالت میں لے جا رہا ہے ۔
فلپائن کے امور خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری گلبرٹ اسکیو کہتے ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ ثالثی کا ٹربیونل مغربی فلپائن کے سمندر میں وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے فلپائن کے حقوق کو تسلیم کرے۔
چین کا کہنا ہے کہ فلپائن کے اقدام سے یہ تنازع پیچیدہ ہو گیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی کہتے ہیں’’چین کو ساؤتھ چائنا سی کے جزائر پر اور ان کے ملحقہ پانیوں پر نا قابلِ تردید اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہے ۔ اس جھگڑے کی اصل وجہ یہ ہے کہ فلپائن نے چین کے بعض علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘
کاٹو انسٹیٹیوٹ جسٹن لوگان کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اقوامِ متحدہ کو بیچ میں ڈالنا، اس طریقۂ کار کے خلاف ہے جس سے چین اس مسئلے سے نمٹنا چاہتا ہے۔’’چینیوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، یہ معاملہ چین اور اس جھگڑے کے دوسر ے فریقوں کے درمیان ہی رہے، اور اسے باقاعدہ طور پر ایک بین الاقوامی تنازع کی حیثیت دیے جانے سے روکا جائے۔‘‘
لوگان پوچھتے ہیں کہ اگر اقوامِ متحدہ کے سمندری قانون کے ٹربیونل نے فلپائن کے حق میں فیصلہ دے بھی دیا، تو اس فیصلے پر عمل درآمد کون کرے گا۔
’’اگر اس فیصلے پر در آمد کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ چین کے ساتھ جنگ چھڑ جائے، تو آپ دیکھیں گے کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ فلپائن کے لیے یہ سودے بازی کا طریقہ ہو اور وہ سوچے کہ اس معاملے میں توازن ہمارے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔ ہم یہ کھیل کھیل سکتےہیں، اور پھر ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے جس کے بارے میں یہ ظاہر ہو کہ ہم اس سے دستبردار ہو رہے ہیں، اگر چین کوئی رعایت دینے پر تیار ہو۔‘‘
سینیٹر جان کیری کی وزیرِ خارجہ کی حیثیت کے عہدے پر تقرری کی توثیق کے لیے جو سماعتیں ہوئیں، ان میں ساؤتھ چائنا سی میں چین کے عزائم کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا ۔ ریپبلیکن سینیٹر مارکو روبیو نے اس تنازع میں انتظامیہ کے رول کے بارے میں سوال کیا۔
انھوں نے کہا’’چین کا رویہ اپنے علاقائی دعووں کے بارے میں روز بروز زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے ہمسایے چین کی طاقت کا توڑ کرنے کے لیے، امریکہ اور امریکی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘
سینیٹر جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایشیا پیسفک کے علاقے میں زیادہ فوجیں تعینات کر دی ہیں، اور چین کا رویہ اسی کا رد عمل ہے ۔
’’چینی اس طرف نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آخر امریکہ کر کیا رہا ہے؟ کیا وہ ہمارے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘
فلپائن، ویتنام اور دوسرے ایشیائی ملکوں کے ساتھ چین کے تنازعات کی روشنی میں، کیری کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ واشنگٹن بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرے ۔
’’دنیا میں دوسری سب سے بڑی معیشت چین کی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل ہضم کر جاتا ہے۔ ضرورت ا س بات کی ہےکہ ہم اس راہ پر چلنے کے ایسے ضابطے تیار کریں جو سب کے لیے کار گر ثابت ہوں۔‘‘
چین کہتا ہے کہ وہ اس علاقے پر اقتدارِ اعلیٰ کے مختلف دعوؤں کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے لیے کام کر رہا ہے لیکن وہ اس کے خلاف ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی انجمن آسیان اس معاملے میں زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرے ۔
فلپائن کے امور خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری گلبرٹ اسکیو کہتے ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ ثالثی کا ٹربیونل مغربی فلپائن کے سمندر میں وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے فلپائن کے حقوق کو تسلیم کرے۔
چین کا کہنا ہے کہ فلپائن کے اقدام سے یہ تنازع پیچیدہ ہو گیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی کہتے ہیں’’چین کو ساؤتھ چائنا سی کے جزائر پر اور ان کے ملحقہ پانیوں پر نا قابلِ تردید اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہے ۔ اس جھگڑے کی اصل وجہ یہ ہے کہ فلپائن نے چین کے بعض علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘
کاٹو انسٹیٹیوٹ جسٹن لوگان کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اقوامِ متحدہ کو بیچ میں ڈالنا، اس طریقۂ کار کے خلاف ہے جس سے چین اس مسئلے سے نمٹنا چاہتا ہے۔’’چینیوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، یہ معاملہ چین اور اس جھگڑے کے دوسر ے فریقوں کے درمیان ہی رہے، اور اسے باقاعدہ طور پر ایک بین الاقوامی تنازع کی حیثیت دیے جانے سے روکا جائے۔‘‘
لوگان پوچھتے ہیں کہ اگر اقوامِ متحدہ کے سمندری قانون کے ٹربیونل نے فلپائن کے حق میں فیصلہ دے بھی دیا، تو اس فیصلے پر عمل درآمد کون کرے گا۔
’’اگر اس فیصلے پر در آمد کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ چین کے ساتھ جنگ چھڑ جائے، تو آپ دیکھیں گے کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ فلپائن کے لیے یہ سودے بازی کا طریقہ ہو اور وہ سوچے کہ اس معاملے میں توازن ہمارے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔ ہم یہ کھیل کھیل سکتےہیں، اور پھر ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے جس کے بارے میں یہ ظاہر ہو کہ ہم اس سے دستبردار ہو رہے ہیں، اگر چین کوئی رعایت دینے پر تیار ہو۔‘‘
سینیٹر جان کیری کی وزیرِ خارجہ کی حیثیت کے عہدے پر تقرری کی توثیق کے لیے جو سماعتیں ہوئیں، ان میں ساؤتھ چائنا سی میں چین کے عزائم کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا ۔ ریپبلیکن سینیٹر مارکو روبیو نے اس تنازع میں انتظامیہ کے رول کے بارے میں سوال کیا۔
انھوں نے کہا’’چین کا رویہ اپنے علاقائی دعووں کے بارے میں روز بروز زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے ہمسایے چین کی طاقت کا توڑ کرنے کے لیے، امریکہ اور امریکی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘
سینیٹر جان کیری نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایشیا پیسفک کے علاقے میں زیادہ فوجیں تعینات کر دی ہیں، اور چین کا رویہ اسی کا رد عمل ہے ۔
’’چینی اس طرف نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آخر امریکہ کر کیا رہا ہے؟ کیا وہ ہمارے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘
فلپائن، ویتنام اور دوسرے ایشیائی ملکوں کے ساتھ چین کے تنازعات کی روشنی میں، کیری کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ واشنگٹن بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرے ۔
’’دنیا میں دوسری سب سے بڑی معیشت چین کی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل ہضم کر جاتا ہے۔ ضرورت ا س بات کی ہےکہ ہم اس راہ پر چلنے کے ایسے ضابطے تیار کریں جو سب کے لیے کار گر ثابت ہوں۔‘‘
چین کہتا ہے کہ وہ اس علاقے پر اقتدارِ اعلیٰ کے مختلف دعوؤں کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے لیے کام کر رہا ہے لیکن وہ اس کے خلاف ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی انجمن آسیان اس معاملے میں زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرے ۔