اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ دنیا یرموک کے لوگوں کو تنہا چھوڑ کر اس قتل عام کو جاری نہیں رہنے دے سکتی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا ہے کہ جمعرات کو شام اور یمن میں شہریوں کو ’’جان بوجھ کر مصائب میں چھوڑا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ تشدد کے خاتمے اور شہریوں کی بہتر حفاظت کے لیے کام کریں۔
شام میں چار سال سے جاری جنگ کے بارے میں بان کی مون نے کہا کہ یرموک میں فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں پر داعش کے حملے سے جنگ ایک نئی پستی میں چلی گئی ہے۔
بان کی مون نے کہا کہ ’’شام کی خوفناک صورتحال میں یرموک کا حال دوزخ کی ایک گہری کھائی جیسا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 18,000 افراد یہاں رہ رہے ہیں جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں، جنہیں مسلسل خطرے کا سامنا ہے۔ انہیں کیمپ کے اندر مسلح عناصر اور کیمپ کے باہر حکومتی فورسز کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مہاجر کیمپ ایک قتل گاہ لگنے لگا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ دنیا یرموک کے لوگوں کو تنہا چھوڑ کر اس قتل عام کو جاری نہیں رہنے دے سکتی۔
بان کی مون نے صحافیوں کو کہا کہ یمن کے بحران نے پہلے سے ہی ایک بہت غریب ملک کو شدید انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حوثی باغیوں کی مزید علاقے پر قبضے کی کوشش اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے اس تنازعے کی شدت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ محصور صدر عبدالربوہ ہادی کی درخواست پر سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ یمن میں فضائی حملے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’اتحادیوں کے فضائی حملے اور حوثیوں اور ان کے حامی گروپوں کی اپنی طاقت کو وسعت دینے کی کوششوں نے ایک اندرونی سیاسی بحران کو ایک پرتشدد تنازعے میں تبدیل کر دیا ہے جس سے خطے پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کا کہنا ہے کہ جب سے 24 مارچ سے لڑائی شروع ہوئی ہے ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور 74 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ چند ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور امدادی ادارے ملک کے بہت سے علاقوں میں شہریوں کو فوری ضرورت کی سہولیات پہنچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
بان کی مون نے کہا کہ اس کا واحد حل اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں مذاکرات کی طرف جلد واپسی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے درخواست کی کہ وہ اس کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔