وائٹ ہاؤس کی ایک ترجمان نے تصیدیق کی ہے کہ شام میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مشتبہ طور پر مل کر لڑنے والا ایک امریکی مارا گیا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہیڈن نے ایک بیان میں بتایا کہ حکام کو ڈگلس مکین کی شام میں موجودگی کے بارے میں معلومات تھیں۔
امریکی عہدیداروں کا ماننا ہے کہ درجنوں امریکی شہری شام اور عراق میں شدت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔
مکین کے ایک رشتہ دار نے امریکی ٹی وی چینل کو بتایا کہ 33 سالہ مکین نے چند سال پہلے عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کر لیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں سے متعلق دمشق سے تعاون کا کوئی ارادہ نہیں۔
ترجمان جان ایرنسٹ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن صدر بشارالاسد کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس پالیسی کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
رواں ہفتے شام میں القاعدہ کے ایک دھڑے کے عسکریت پسندوں نے 45 سالہ امریکی مصنف پیٹر تھیو کرٹس کو رہا کیا تھا۔ کرٹس 2012 میں لاپتہ ہوگیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے ایک امریکی صحافی جیمز فولی کو قتل کر دیا تھا۔
رہا ہونے والے امریکی کی والدہ نے ٹی وی چینل ’’اے بی سی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ (ان کا بیٹا) بہت پرجوش ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ کرٹس ہوٹل میں رہ رہا ہے اور رہائی سے پہلے اس نے داڑھی بھی بڑھا لی تھی۔
انہیں منگل کو رات گئے مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق تل ابیب سے جہاز میں بوسٹن لایا گیا جہاں ان کی والدہ نے ان کا استقبال کیا۔
ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد انہوں نے فولی کی والدہ کو خط لکھا۔
’’ہم دونوں اس مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور میں نہیں چاہتی تھی کہ اس پیش رفت کی معلومات اسے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملے۔‘‘