امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مالی طور پر ایسے منصوبے سامنے لائے گا جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کر سکیں۔
انتظامیہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق اس منصوبے کا نام ’بِلڈ بیک بیٹر فار دا ورلڈ‘ (یعنی بہتر دنیا کی دوبارہ تعمیر) ہو گا اور اس کا اعلان برطانیہ میں جی سیون کے شراکت داروں کے سامنے کیا جائے گا۔
افسر کے مطابق یہ منصوبہ روایات کی پاسداری، شفافیت اور استحکام بخشنے جیسے عوامل پر مبنی ہوگا۔
انتظامیہ کے ایک اور افسر نے ایک بیان میں کہا کہ چین کے منصوبے کو بہتر معیار سے شکست دی جا سکتی۔ اپنے ماڈل پر اس اعتماد کے ساتھ اسے دنیا کے سامنے رکھا جائے گا کہ یہ منصوبہ مشترکہ روایات کا عکاس ہوگا۔
چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ 2013 میں متعارف کرایا گیا تھا جس میں 70 ممالک میں تعمیری ڈھانچے اور ترقیاتی کاموں پر سرمایہ کاری کی جانی ہے۔ یہ منصوبہ چین کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے افسر کا کہنا ہے کہ امریکہ کا منصوبہ جسے ’B3W‘ کے نام سے پکارا جا رہا ہے، میں نجی سیکٹر کے ذریعے دنیا بھر میں غریب اور ترقی پذیر ممالک میں تعمیری ڈھانچے اور سڑکوں پر کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں دنیا کے لیبر، ماحولیاتی اور شفافیت کے معیار کی بھی پاسداری کی جائے گی۔
تاہم امریکہ کے اس منصوبے میں کس قدر سرمایہ کاری کی جائے گی اور اس کو کب مکمل کیا جائے گا اس بارے میں حتمی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ولسن سینٹر کے کسنجر انسٹی ٹیوٹ آن چائنہ اینڈ یونائیٹڈ اسٹیٹس کے ڈائریکٹر رابرٹ ڈیلے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال اس وقت جائز ہے کہ آیا یہ سرمایہ کاری نئے سرے سے فنڈ کی جائے گی۔ ان ممالک کے انفراسٹرکچر کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا یا یہ پہلے سے موجود وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ ہے۔
چین کی جانب سے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ایسے منصوبوں پر بھی قرض فراہم کیا گیا ہے جن کے لیے عالمی اداروں نے قرض فراہم کرنے سے انکار کیا تھا۔
رابرٹ ڈیلے نے کہا کہ اس لیے یہ اہم ہے کہ کیا اسے نئے منصوبہ میں مالی طور پر زیادہ خطرہ مول لیا جائے گا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے تو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک ان پر اب تک سرمایہ کاری کر چکے ہوتے۔