امریکہ نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب اور تہران کی پشت پناہی سے کام کرنے والے عراقی اور شامی ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کیے ہیں اور یہ حملے مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکی فوجی اڈوں سے ہی کیے جا رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے امریکہ اپنے فوجی اڈے چلا رہا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران امریکی فوجی ایران کی حمایت یافتہ فورسز کے حملوں کی زد میں آئے ہیں جب کہ امریکی فوجیوں نے ان فورسز کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی پر کچھ یوں نظر ڈالی ہے۔
سال 2007 میں عراق میں ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ اہلکار تھے اور 2011 میں افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے۔ اگرچہ سال 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے بعد یہ تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ لیکن اب بھی تقریباً 30,000 امریکی فوجی پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ، گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکہ نے عارضی طور پر ہزاروں اضافی فوجیوں کو جنگی جہازوں سمیت خطے میں بھیج دیا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ قطر میں واقع ہے جسے العدید ایئر بیس کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1996 میں بنایا گیا تھا۔
SEE ALSO: اردن میں امریکی افواج پر حملہ: آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟خطے میں دیگر ممالک جہاں امریکہ کی عسکری موجودگی ہے ان میں بحرین، کویت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔
شام میں امریکہ کے تقریباً 900 فوجی ہیں جو العمر آئل فیلڈ اور الشدادی جیسے چھوٹے اڈوں میں زیادہ تر ملک کے شمال مشرق میں ہیں۔
عراق اور اردن کے ساتھ ملک کی سرحد کے قریب ایک اور چھوٹی چوکی بھی ہے جسے التنف گیریژن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے اہم ملک عراق میں 2,500 اہلکار موجود ہیں جو عین الاسد ایئر بیس اور 'یونین تین' جیسی سہولیات کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔
امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بناء پر مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں اور شام کے علاوہ وہ ہر ملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجود ہیں۔
عراق اور شام جیسے ملکوں میں امریکی فوجی داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے موجود ہیں۔ امریکی فوجی مقامی فورسز کو مشورہ دینے میں بھی مدد کر رہے ہیں۔
امریکہ کے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرز ہیں جہاں وہ سال بھر وسیع مشقیں کرتے ہیں۔
قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے دوسرے مقامات پر امریکی فوجیوں کی موجودگی اتحادی افواج کی تربیت اور خطے میں ضرورت کے مطابق کارروائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اگرچہ واشنگٹن کے اتحادی بعض اوقات اپنے فوجیوں کو امریکی فوج کے ساتھ تربیت یا کام کرنے کے لیے بھیجتے ہیں، لیکن امریکہ کے اندر کوئی غیر ملکی فوجی اڈے نہیں ہیں۔
اردن میں ٹاور 22 اڈہ
امریکہ کا 'ٹاور 22' فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پر واقع ہے۔ اس مقام پر اردن کی سرحدیں شام اور عراق سے ملتی ہیں۔ گزشتہ ماہ 28 جنوری کو اس اڈے پر ایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزرو کے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
واشنگٹن نے ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ پر اس حملے کا الزام لگایا تھا۔
SEE ALSO: بائیڈن امریکی فوجیوں پرحملے کا جواب دینے کیلئے پرعزم، ایران کا جوابی کارروائی کا انتباہ'ٹاور 22' التنف گیریژن کے قریب ہے، جو شام میں سرحد کے اُس پار واقع ہے۔ یہاں امریکی فوجیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد موجود ہے۔
التنف کا علاقہ داعش کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار کا حامل ہے اور اس نے مشرقی شام میں ایران کی فوجی تشکیل کو روکنے کے لیے امریکی حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔
کن ملکوں میں امریکی فوجی اڈے حملوں کی زد میں آتے ہیں؟
حالیہ برسوں میں عراق اور شام میں امریکی فوجیوں پر اکثر حملے ہوتے رہے ہیں۔ البتہ قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت جیسے ممالک میں امریکی تنصیبات پر عام طور پر حملے نہیں ہوتے۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکی فوجیوں پر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی طرف سے 160 سے زیادہ بار حملے کیے گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ 'ٹاور 22' اڈے پر حملے سے پہلے امریکی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں تقریباً 80 فوجی زخمی ہوئے تھے۔ صرف ٹاور 22 پر حملے میں 40 کے قریب امریکی فوجی زخمی ہوئے۔
SEE ALSO: اردن: امریکی اڈے پر حملے کی مبینہ ذمے دار ’کتائب حزب اللہ‘ کتنی طاقت ور ہے؟امریکی اڈوں کی میزائلوں یا ڈرونز سے بچاؤ کے لیے فضائی دفاعی نظام سمیت سہولیات سے حفاظت کی جاتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کی ایک نئی لہر گزشتہ سال اکتوبر کے بعد سے جاری ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل میں گھس کر 1,200 اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور 253 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل نے اس حملے کے جواب میں غزہ کی پٹی پر ایک فوجی مہم شروع کی جس میں حماس کے زیر انتظام محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق 27,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی عسکری مہم غزہ کی گنجان آباد پٹی میں ایک شدید انسانی بحران کا باعث بنی ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔