امریکہ میں بے روزگاری الاؤنس لینے والوں کی تعداد بدستور بلند ہے اور محکمہ محنت نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ ملک میں کرونا وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے مزید 9 لاکھ کارکنوں نے ملازمت سے برطرفیوں کے بعد بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں دائر کیں ہیں۔ تاہم یہ تعداد اس سے ایک ہفتہ قبل کی ترمیم شدہ تعداد سے 26 ہزار کم ہے۔
دو ہفتے قبل ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دسمبر کے مہینے میں امریکی کاروباروں نے اپنے ایک لاکھ 40 ہزار کارکنوں کو فارغ کر دیا ہے، جو ملک میں کرونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہونے کے بعد روزگار کے مواقعوں میں سب سے بڑی گراوٹ تھی۔
اس سے قبل کے ہفتوں میں بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں دینے والوں کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ کے درمیان رہی تھی۔ جب کہ سب سے زیادہ کارکن گزشتہ سال مارچ میں کرونا وائرس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہوئے تھے جن کی تعداد 69 لاکھ تھی۔
کرونا کی وبا کے باعث بے روزگار ہونے والوں کی امداد کے لیے وفاقی حکومت نے 11 ہفتوں تک 300 ڈالر فی ہفتہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ صدر بائیڈن نے بدھ کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک اعشاریہ نو ٹریلیئن ڈالر مالیت کے کرونا وائرس پیکیج کی تجویز دی ہے، جس میں بے روزگار افراد کو ستمبر تک 400 ڈالر فی ہفتہ وفاقی امداد دینے کا عندیہ بھی شامل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں کرونا کے باعث بے روزگار ہونے والے دو کروڑ 20 لاکھ کارکنوں میں سے لگ بھگ ایک کروڑ کو ابھی تک ملازمت نہیں مل سکی ہے، جس کی وجہ سے دسمبر میں بے روزگاری کی سطح چھ اعشاریہ سات فی صد پر تھی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی مہینوں تک بے روزگار کی یہ سطح برقرار رہ سکتی ہے۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا کی شدت امریکہ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جہاں اموات کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ اور اس مہلک انفکشن میں مبتلا ہونے والوں کی گنتی دو کروڑ 44 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں معیشت اس سال جون کے بعد بہتر ہونا شروع ہو جائے گی، کیونکہ اس وقت تک کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کٰئی کروڑ افراد کو دی جا چکی ہو گی۔ اس وقت تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کو ویکسین دی جا چکی ہے۔