محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا ہے کہ ملک میں امن و استحکام کی جانب پیش رفت تمام گروہوں کے تشدد کی انتقامی کارروائیوں کو ترک کرکے بہتر مستقبل کی کوششیں کرنے سے ہی ممکن ہے۔
امریکہ نے جمہوریہ وسطی افریقہ پر زور دیا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے جاری تشدد کی کارروائیوں کے خاتمے کے لیے وہ بین الاقوامی برادری اور اپنی عبوری حکومت کی مدد سے استفادہ کریں۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افریقی ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے فرقہ وارانہ حملوں پر واشنگٹن کو شدید تشویش ہے اور ان تشدد کی کارروائیوں کا خاتمہ لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی امن و استحکام کی جانب پیش رفت تمام گروہوں کے تشدد کی انتقامی کارروائیوں کو ترک کرکے بہتر مستقبل کی کوششیں کرنے سے ہی ممکن ہے۔
قبل ازیں بدھ کو فوجی اہلکاروں پر یہ الزام بھی سامنے آیا تھا کہ انہوں نے باغی سیلیکا گروہ سے مبینہ طور پر تعلق رکھنے والے ایک شخص کو ہلاک کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا۔ اس باغی گروہ نے گزشتہ سال مارچ میں صدر فرانسوا بوزیز کی حکومت کا تحتہ الٹا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق فوجیوں نے دارالحکومت بانگوئی میں اس شخص کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹنے سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر چھرا گھونپ کا مار دیا۔
اس واقعے سے کچھ دیر قبل ہی عبوری صدر کیتھرین سامبا نے فوج کو گزشتہ سال کی بغاوت کے بعد منظم ہونے کی کوششیں کرنے پر سراہا تھا۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر باؤکارئٹ بھی اس تقریب میں شریک تھے اور انھوں نے خود بھی تشدد کا واقعہ دیکھا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہاں قریب موجود افریقی امن مشن کے اہلکاروں نے اس واقعے کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
’’میرے خیال میں وہ فوجی وردیوں میں ملبوس ہزراوں کی تعداد میں اہلکاروں کی بھیڑ سے خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کی آنکھوں کے سامنے قتل و غارت گری کا منظر تھا۔‘‘
یہ تازہ واقعہ صدر کی برطرفی کے بعد وہإں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کی ایک مثال ہے۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افریقی ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے فرقہ وارانہ حملوں پر واشنگٹن کو شدید تشویش ہے اور ان تشدد کی کارروائیوں کا خاتمہ لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریہ وسطی افریقہ کی امن و استحکام کی جانب پیش رفت تمام گروہوں کے تشدد کی انتقامی کارروائیوں کو ترک کرکے بہتر مستقبل کی کوششیں کرنے سے ہی ممکن ہے۔
قبل ازیں بدھ کو فوجی اہلکاروں پر یہ الزام بھی سامنے آیا تھا کہ انہوں نے باغی سیلیکا گروہ سے مبینہ طور پر تعلق رکھنے والے ایک شخص کو ہلاک کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا۔ اس باغی گروہ نے گزشتہ سال مارچ میں صدر فرانسوا بوزیز کی حکومت کا تحتہ الٹا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق فوجیوں نے دارالحکومت بانگوئی میں اس شخص کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹنے سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر چھرا گھونپ کا مار دیا۔
اس واقعے سے کچھ دیر قبل ہی عبوری صدر کیتھرین سامبا نے فوج کو گزشتہ سال کی بغاوت کے بعد منظم ہونے کی کوششیں کرنے پر سراہا تھا۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر باؤکارئٹ بھی اس تقریب میں شریک تھے اور انھوں نے خود بھی تشدد کا واقعہ دیکھا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہاں قریب موجود افریقی امن مشن کے اہلکاروں نے اس واقعے کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
’’میرے خیال میں وہ فوجی وردیوں میں ملبوس ہزراوں کی تعداد میں اہلکاروں کی بھیڑ سے خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کی آنکھوں کے سامنے قتل و غارت گری کا منظر تھا۔‘‘
یہ تازہ واقعہ صدر کی برطرفی کے بعد وہإں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کی ایک مثال ہے۔