امریکہ نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سعودی صحافی کی گمشدگی کی تحقیقات میں تعاون کرے جن کے بارے میں ترک حکام کو شبہ ہے کہ انہیں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کیا جا چکا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے جمال خاشقجی کی زندگی اور ان کی گمشدگی کے بارے میں گردش کرنے والی افواہوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے سینئر حکام اس معاملے پر سعودی حکومت سے بات کر رہے ہیں۔
پیر کو اپنے ایک بیان میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کی مکمل تحقیقات میں تعاون کرے۔
اس سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمال خاشقجی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ یہ معمہ جلد حل ہوجائے گا۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ جمال خاشقجی کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے لیکن ان کے بقول اس بارے میں بعض "بہت بری کہانیاں" گردش کر رہی ہیں۔
صدر نے کہا تھا کہ انہیں اس معاملے پر تشویش ہے اور وہ اس بارے میں سننا ںہیں چاہتے۔
انسٹھ سالہ جمال خاشقجی ایک معروف سعودی صحافی ہیں جو گزشتہ منگل کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے وہ باہر نہیں آئے۔
جمال خاشقجی کی ترک منگیتر قونصل خانے کے باہر ان کی منتظر تھیں جنہوں نے کئی گھنٹوں تک خاشقجی کے باہر نہ آنے پر ترک حکام کو مطلع کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے بعض ترک حکام کے حوالے سے کہا تھا کہ ترک پولیس کو شبہ ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا ہے۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ خاشقجی اپنی آمد کے کچھ دیر بعد قونصل خانے سے چلے گئے تھے لیکن ترک حکومت نے سعودی حکام سے اس دعوے کے شواہد پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کو ہنگری کے دارالحکومت بداپسٹ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خاشقجی سے متعلق سوال پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ خاشقجی کے قونصل خانے سے واپس جانے کا ثبوت پیش کرے۔
ترک صدر نے کہا کہ سعودی قونصل خانے کا عملہ صرف یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ خاشقجی وہاں سے چلے گئے تھے۔
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے بقول ترک حکام کے پاس تاحال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق کوئی دستاویز یا ثبوت نہیں ہے۔
ایک ترک ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک حکام نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترک پولیس کو استنبول میں واقع اپنے قونصل خانے کی تلاشی لینے کی اجازت دے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کے باعث ترک پولیس تفتیش کے لیے قونصل خانے کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتی ہے۔
امریکہ میں تعینات سعودی سفیر اور سعودی ولی عہدکے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان نے اپنے ایک بیان میں خاشقجی کے قونصل خانے میں قتل کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک نے ترکی کی اجازت سے ایک سکیورٹی ٹیم استنبول بھیجی ہے جو تحقیقات میں تعاون کرے گی۔
جمال خاشقجی سعودی حکومت کے کڑے ناقد ہیں جو سعودی حکومت کی ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے گزشتہ ایک سال سے خودساختہ جلاوطنی پر امریکہ میں مقیم تھے۔
جمال اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے والے تھے اور اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیے جانے کی تصدیقی دستاویز کے حصول کے لیے منگل کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے۔
انسٹھ سالہ خاشقجی ایک سعودی جریدے کے مدیر رہنے کے علاوہ ماضی میں سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
وہ سعودی حکومت خصوصاً ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کڑے ناقد تھے اور امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں ہفتہ وار کالم بھی لکھا کرتے تھے ۔