ایران کو اس کے اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، امریکہ

نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل پر ایران کے میزائل حملوں پر ہونے والے ہنگامی اجلاس کا ایک منظر۔ 2 اکتوبر 2024

  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ نے ایران کو اپنے اور اسرائیل کے خلاف حملوں سے انتباہ کیا ہے۔
  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے مشرق وسطیٰ میں جواب در جواب کا مہلک تشدد بند ہونا چاہیے۔
  • فرانس نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یک زبان ہو جائے۔
  • روس نے کہا ہے کہ ایران کا اسرائیل پر حملہ خلا میں نہیں ہوا، اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے۔
  • امریکہ نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کی اسلامی گارڈز کور پر سخت پابندیاں لگائی جائیں۔
  • ایران نے کہا ہے کہ اس کا میزائل حملہ اپنی خودمختاری کے خلاف دفاع میں تھا۔
  • اسرائیل نے ایران کی جانب سے اپنے دفاع کے دعویٰ کو مسترد کر دیا۔

امریکہ نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکہ یا اسرائیل کو ٹارگٹ کیے جانے کے خلاف ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں ’جیسے کو تیسا‘ نوعیت کا مہلک تشدد بند ہونا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے‘۔

15 رکنی سلامتی کونسل کا اجلاس اسرائیل کی جانب سے لبنان کی حزب اللہ کے رہنما کی ہلاکت اور ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف زمینی حملے کے شروع کیے جانے اور ایران کے اسرائیل پر میزائلوں کے حملے کے بعد ہوا جس سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ہمارے اقدامات دفاعی نوعیت کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دوں کہ ایرانی حکومت کو اس کے اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور ہم ایران یا اس کے پراکسیز کو امریکہ یا اسرائیل کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کے خلاف سختی سے خبردار کرتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی: آگے کیا ہو سکتا ہے؟

اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویئر نے کہا کہ فرانس چاہتا ہے کہ سلامتی کونسل ’اتحاد کا مظاہرہ کرے اور کشیدہ صورت حال میں کمی کے لیے یک زبان ہو جائے۔

تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے حملے کی مذمت کرنی چاہیے اور ایران کی طاقت ور اسلامی گارڈز کور پر اس کی کارروائیوں کے سلسلے میں ’سنگین نتائج ‘ کا اطلاق کرنا چاہیے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ، ’یہ ہماری ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، سلامتی کونسل کے ارکان کے طور پر، آئی آر جی سی پر دہشت گردی کی حمایت کرنے اور اس کونسل کی بہت سی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر اضافی پابندیاں عائد کریں‘۔

SEE ALSO: ایران کا میزائل پروگرام کتنا طاقتور ہے؟

گوتریس نے کونسل کو بتایا کہ وہ اسرائیل پر ایران کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

اس سے قبل بدھ کو اسرائیل کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ گوتریس کا اپنے ملک میں داخلہ بند کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسیلی نیبن زیا نے حالیہ مہینوں کے دوران ایران کے ’غیر معمولی تحمل ‘ کی تعریف کی اور کہا کہ اسرائیل پر میزائل حملے کو ’ایسے پیش نہیں کیا جا سکتا جیسے یہ سب کچھ خلا میں ہوا ہو، جیسے کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے اور لبنان، اور غزہ اور شام اور یمن میں کچھ نہیں ہوا ہے‘۔

نیبنن زیا نے کہا،’لیکن ایسا ہوا، اور اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں وسعت اختیار کرتے ہوئے تنازع کا ایک نیا، انتہائی خطرناک سلسلہ شروع ہوا‘۔

منگل کو سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط میں، ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع میں اسرائیل پر حملے کا جواز پیش کیا، جس میں اسرائیل کی ’جارحانہ کارروائیوں بشمول ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا۔

SEE ALSO: ایران کے میزائل حملے کے بعد اسرائیل کے شدید ردِ عمل کے خدشات

ایران نے کونسل کو لکھا کہ، ’ایران نے ۔۔۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت عام شہریوں اور مسلح گرہوں کے درمیان امتیاز کے اصول کی مکمل تعمیل کرتے ہوئے، اپنے دفاعی میزائل حملوں میں صرف حکومت کی فوجی اور سیکیورٹی تنصیبات کو ٹارگٹ کیا ہے‘۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے بدھ کے روز ایران کے اپنے دفاع کے دعویٰ کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے کونسل کے اجلاس سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ شہری آبادی پر ایک نپاتلا حملہ تھا۔ اسرائیل اس طرح کی جارحیت کو دیکھتا نہیں رہے گا۔ اسرائیل جواب دے گا۔ ہمارا ردعمل فیصلہ کن ہو گا، اور ہاں، یہ تکلیف دہ ہو گا۔ لیکن ایران کے برعکس ہم مکمل طور پر بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کریں گے‘۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)