اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر یوکرین کے اقتدار ِاعلیٰ کی ایک بار پھر خلاف ورزی کی گئی، تو امریکہ روس کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے میں دیر نہیں کرے گا
واشنگٹن —
امریکہ کا کہنا ہےکہ یوں لگتا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں وہی حربے آزما رہا ہے جو اُس نے اِس سال کے اوائل میں کرائمیا پر قبضہ جمانے اور اُس کے الحاق کے لیے استعمال کیے تھے۔
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر یوکرین کے اقتدار ِاعلیٰ کی ایک بار پھر خلاف ورزی کی گئی، تو امریکہ روس کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔
یوکرین کی خصوصی افواج اور روس نواز میلشیاؤں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ مشرقی یوکرین میں تنازعے میں بگاڑ کی واضح نشانی ہے، جہاں روس نواز باشندے کیئف سے خودمختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
روسی اہل کار اِس بات پر مصر ہیں کہ مشرقی یوکرین میں اُن کے کوئی علاقائی عزائم نہیں ہیں۔ تاہم، اوباما انتظامیہ موجودہ ساز باز کے پیچھے روس کے خفیہ ہتھکنڈوں کو دیکھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے ’اے بی سی‘ ٹیلی ویژن پروگرام ’دِس ویک‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اِس کے پیچھے وہی کہانی چُھپی ہوئی ہے، جو ہم پہلے ہی کرائمیا میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ کہانی بڑے پیشہ وارانہ انداز سے اور ایک مربوط طریقے سے تیار کی گئی ہے۔
پاور کے بقول، ’بظاہر، اِس بات کے آثار دکھائی نہیں دیتے‘۔
مشرقی یوکرین میں تناؤٴ کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورت حال سے پہلے ہی، چند امریکی قانون سازوں نے امریکہ اور یورپ پر زور دے چکے ہیں کہ روسی علاقائی توسیع کے عزائم کا بغور جائزہ لیا جائے۔
’سی بی ایس‘ کے ’فیس دِی نیشن‘ پروگرام میں بات کرتے ہوئے، ریبپلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر،جان مک کین نے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن کےاقدامات پر روس کی طرف سے خاطر خواہ قیمت چکانے کا معاملہ ابھی باقی ہے۔
بقول اُن کے، ’اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں، اور وہ (پیوٹن) کیا کرتا ہے۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ اُنھیں اِس حقیقت کی بنا پر شہ ملی ہے کہ ہم نے چند افراد پر ہی پابندی لگائی اور اُنھیں معطل کیا۔ لیکن، ہم نے اُنھیں ’جی ایٹ‘ سے باہر نہیں نکالا‘۔
مک کین نے کہا کہ،’ ظاہر سی بات ہے کہ اتنی فوجوں کو تعینات کرکے، وہ اپنی اغراض کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے‘۔
ایمبسڈر پاور نے زور دے کر کہا ہے کہ کرائمیا کے الحاق کی روس نے قیمت ضرور ادا کی ہے، اور اگر یہ بحران مزید سنگین ہوتا ہے تو اُسے مزید قیمت ادا کرنے پڑے گی۔
جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پیوٹن مشرقی یوکرین کا کنٹرول سنبھالنا چاہتا ہے، تو پاور نے کہا کہ، ’روس کے اقدامات اِس خیال کو تقویت دیتے ہیں، حالانکہ روس کے دعوے اِس کے برعکس رہے ہیں‘۔
اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر یوکرین کے اقتدار ِاعلیٰ کی ایک بار پھر خلاف ورزی کی گئی، تو امریکہ روس کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔
یوکرین کی خصوصی افواج اور روس نواز میلشیاؤں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ مشرقی یوکرین میں تنازعے میں بگاڑ کی واضح نشانی ہے، جہاں روس نواز باشندے کیئف سے خودمختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
روسی اہل کار اِس بات پر مصر ہیں کہ مشرقی یوکرین میں اُن کے کوئی علاقائی عزائم نہیں ہیں۔ تاہم، اوباما انتظامیہ موجودہ ساز باز کے پیچھے روس کے خفیہ ہتھکنڈوں کو دیکھ رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے ’اے بی سی‘ ٹیلی ویژن پروگرام ’دِس ویک‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اِس کے پیچھے وہی کہانی چُھپی ہوئی ہے، جو ہم پہلے ہی کرائمیا میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ کہانی بڑے پیشہ وارانہ انداز سے اور ایک مربوط طریقے سے تیار کی گئی ہے۔
پاور کے بقول، ’بظاہر، اِس بات کے آثار دکھائی نہیں دیتے‘۔
مشرقی یوکرین میں تناؤٴ کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورت حال سے پہلے ہی، چند امریکی قانون سازوں نے امریکہ اور یورپ پر زور دے چکے ہیں کہ روسی علاقائی توسیع کے عزائم کا بغور جائزہ لیا جائے۔
’سی بی ایس‘ کے ’فیس دِی نیشن‘ پروگرام میں بات کرتے ہوئے، ریبپلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر،جان مک کین نے کہا ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن کےاقدامات پر روس کی طرف سے خاطر خواہ قیمت چکانے کا معاملہ ابھی باقی ہے۔
بقول اُن کے، ’اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں، اور وہ (پیوٹن) کیا کرتا ہے۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ اُنھیں اِس حقیقت کی بنا پر شہ ملی ہے کہ ہم نے چند افراد پر ہی پابندی لگائی اور اُنھیں معطل کیا۔ لیکن، ہم نے اُنھیں ’جی ایٹ‘ سے باہر نہیں نکالا‘۔
مک کین نے کہا کہ،’ ظاہر سی بات ہے کہ اتنی فوجوں کو تعینات کرکے، وہ اپنی اغراض کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے‘۔
ایمبسڈر پاور نے زور دے کر کہا ہے کہ کرائمیا کے الحاق کی روس نے قیمت ضرور ادا کی ہے، اور اگر یہ بحران مزید سنگین ہوتا ہے تو اُسے مزید قیمت ادا کرنے پڑے گی۔
جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پیوٹن مشرقی یوکرین کا کنٹرول سنبھالنا چاہتا ہے، تو پاور نے کہا کہ، ’روس کے اقدامات اِس خیال کو تقویت دیتے ہیں، حالانکہ روس کے دعوے اِس کے برعکس رہے ہیں‘۔