امریکہ نے پاکستان اور بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر امن برقرار رکھنے کے لیے جنگ بندی کے دو طرفہ معاہدے کی پاسداری کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔
امریکہ کا مزید کہنا ہے کہ ہم کشمیر اور دیگر معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب اقومِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر 2003 کے فائر بندی معاہدے کے تحت امن برقرار رکھنے کے اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار ہو گی۔
یادر ہے کہ بھارت اور پاکستان نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ دونوں ممالک نے 25 فروری سے تمام معاہدوں کے تحت لائن آف کنٹرول سمیت تمام سیکٹرز میں فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر لائن معاہدے پر عمل درآمد کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ تناؤ میں کمی کے لیے رابطوں کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے جمعرات کو کہا ہے کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے اس مشترکہ بیان کا خیر مقدم کرتا ہے جس میں دونوں ممالک نے 25 فروری سے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کو سختی سے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کےبقول جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کی طرف یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو ان کے بقول ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ جین ساکی نے مزید کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ دونوں ملک اس پیش رفت کو آگے بڑھائیں۔
دوسری جانب امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روابط کو بہتر کرنے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور تشد کو کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ کشمیر اور دیگر معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ امریکہ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان کے بقول امریکہ کا پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کو سراہنا کافی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول جولائی 2001 میں اس وقت پاکستان کے صدر پرویز مشرف اور بھارت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان ہونے والے ملاقات بھی امریکہ کی کوششوں ہی سے ممکن ہوئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب بھارت کے سلامتی کے تجزیہ کار پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی پر تناؤ کم کرنے کے اقدام کو مثبت قرار دیا ہے۔ ان کے بقول یہ پیش رفت دونوں طرف کی قیادت کے سیاسی عزم ہی سے ممکن ہوئی ہے۔
پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان پسِ پردہ بات چیت کا عمل جاری تھا۔ ان کے بقول اگرچہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے اس کی تردید کی ہے۔ تاہم ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں چین کے کردار کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کار پروین ساہنی کے خیال میں ایسا لگتا ہے پاک بھارت کشیدگی کو کم کرانے میں شاید چین نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ان کے بقول اگر ایسا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع امور کو حل کرنے کے لیے بات چیت کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے سابق سفارت کار شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سفارت کاروں کا ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے ان کے بقول اگر پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ایسا کوئی رابطہ ہو ا ہے تو یہ اعتماد کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن اس کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہو گا بلکہ پاکستان اور بھارت کو اصل مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کرنی ہے جس میں ان کے بقول اولین مسئلہ کشمیر کا ہے۔