صدرجو بائیڈن نے یکم اگست کو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی بلیو روم بالکونی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکی فضائی حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری افغانستان میں مارے گئے۔ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے ایک سال بعد، بائیڈن اور قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام انسداد دہشت گردی کے بارے میں کم اور چین کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے لاحق سیاسی، اقتصادی اور فوجی خطرات کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں۔
انٹیلیجینس ایجنسی کے انسداد دہشت گردی کے مرکز کے رہنماؤں کے ساتھ بند کمرے کی ایک حالیہ میٹنگ میں، سی آئی اے کے دوسرے سینیر ترین اہلکار نے واضح کیا کہ القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروپوں سے لڑنا ہماری ترجیح رہے گی، ساتھ ہی چین پرمزید توجہ مرکوز کرنے کے لیےایجنسی کے مالی اور دیگر وسائل کو تیزی سے منتقل کیا جائے گا۔
افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے ایک سال بعد، صدر جو بائیڈن اور قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام انسداد دہشت گردی کے بارے میں کم اور چین کے ساتھ ساتھ روس کی طرف سے لاحق سیاسی، اقتصادی اور فوجی خطرات کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں۔ لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر ایک خاموش سرگرمی جاری ہے اور سینکڑوں افسران نے چین پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلے دہشت گردی پر کام کر رہے تھے۔
انٹیلی جنس حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شاید ہی نظر انداز کیا جا رہا ہو۔ صرف ایک ہفتہ قبل انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ سی آئی اے کے ڈرون حملے میں کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی تھی۔ لیکن کچھ دن بعد، چین نے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں اور ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے پر امریکہ کے ساتھ رابطے منقطع کرنے کی دھمکی دی۔ چین کی جانب اس طرح کے جارحانہ رویّے کی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن پہلے ہی نشاندہی کر چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایجنسی کی اولین ترجیح بیجنگ کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
امریکہ طویل عرصے سے چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی عزائم سے پریشان ہے۔ چین نے غیر ملکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے، سائبر اور کارپوریٹ جاسوسی کی مہمیں چلائی ہیں، اور لاکھوں اقلیتی ایغوروں کو کیمپوں میں نظر بند کر رکھا ہے۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بیجنگ آنے والے برسوں میں تائیوان کے خود مختار جمہوری جزیرے پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
انٹیلی جنس حکام نے کہا ہے کہ انہیں چین کے بارے میں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کوویڈ 19 کی یقینی طور پر نشاندہی کرنے میں ناکام ہونے کے بعد ہی بیجنگ پروائرس کی ابتدا کے بارے میں معلومات کو دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
اسی طرح یوکرین کی جنگ نے ایک ہدف کے طور پرروس کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ امریکہ نے کیف پر حملے سے پہلے روسی صدر ولادی میر پوٹن کے جنگی منصوبوں کو بے نقاب کرنے اور کیف کے لیے سفارتی حمایت حاصل کرنے کے لیے خفیہ معلومات کا استعمال کی ۔
دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کے حامیوں نے نوٹ کیا کہ یہ حقیقت کہ امریکہ الظواہری کو تلاش کرنے اور اسے مارنے میں کامیاب رہا، اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ وہ بیرون ملک سے افغانستان کے اندر موجود خطرات کو نشانہ بنا نے کی اہلیت رکھتا ہے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کہ الظواہری کابل میں طالبان کے تحفظ میں رہ رہے تھے وہاں ایسے انتہا پسند گروپس کے دوبارہ سر اٹھانے کی نشاندہی کرتی ہے جن کا امریکہ پوری طرح سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ترجیحات میں تبدیلی کی ضرورت کو بہت سے سابق انٹیلی جنس افسران اور دونوں جماعتوں کے قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے جو کہتے ہیں کہ یہ کام بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے افغانستان میں خدمات انجام دیں اور القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف دیگر مشنز میں خدمات انجام دیں۔
افغانستان اورعراق میں خدمات انجام دینے والے سابق آرمی رینجر کے نمائندے جیسن کرو نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ گزشتہ کئی برسوں سے انسداد دہشت گردی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایوان کی انٹیلی جنس اور آرمڈ سروسز کمیٹیوں میں خدمات انجام دینے والے کولوراڈو کے ڈیموکریٹ کرو نے کہا کہ "ایک بہت بڑا حقیقی خطرہ روس اورچین کا بھی ہے۔" انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروہ امریکی طرز زندگی کو تباہ نہیں کریں گے جس طرح چین کر سکتا ہے۔
سی آئی اے کے ترجمان ٹامی تھورپ نے نوٹ کیا کہ دہشت گردی ایک حقیقی چیلنج بن چکی ہے۔
تھورپ نے کہا، " یوکرین پر روس کے حملے جیسے بحران اورعوامی جمہوریہ چین کی طرف سے پیش کردہ اسٹریٹجک چیلنجز ہماری توجہ کے طالب ہیں اور ساتھ ہی سی آئی اے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرات سے جارحانہ طریقے سے نمٹے گی اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔"
حسّاس انٹیلی جنس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے اس معاملے سے واقف کئی لوگوں کے مطابق کانگریس نے سی آئی اے اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں پر چین کو اولین ترجیح بنانے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ چین کی طرف وسائل بڑھانے کے لیے انسداد دہشت گردی سمیت دیگر جگہوں پر کٹوتیوں کی ضرورت ہے۔ مخصوص اعداد و شماردستیاب نہیں تھے۔
خاص طور پر، قانون ساز، جدید ٹیکنالوجیز میں چین کی ترقی کے بارے میں مزید معلومات چاہتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ کے دور میں، چین نے کوانٹم سائنس، مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹیکنالوجیز پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کاعہد کیا ہے جس سے مستقبل میں جنگیں لڑنے اور معیشتوں کی تشکیل کے طریقہ کارمیں خلل پڑنے کا امکان ہے۔
SEE ALSO: چین کے ساتھ معاشی مسابقت؛ سینیٹ میں نیا بل منظوراس معاملے سے واقف ایک شخص نے کہا کہ تبدیلی کے ایک حصے کے طور پر، کانگریس کی کمیٹیاں بہتر طریقے سے یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں چین پر اپنی فنڈنگ کیسے خرچ کرتی ہیں۔ امریکی ریاست سے ریپبلکن کرس سٹیورٹ نے کہا کہ "ہم نے دیر کر دی ہے، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ ہم آخر کار اپنی توجہ اس خطے کی طرف مبذول کر رہے ہیں۔"
سی آئی اے نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ وہ دو نئے "مشن مراکز" بنائے گی - ایک چین پر، دوسرا ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیزپر-
اس معاملے سے واقف لوگوں نے بتایا ہے کہ ایجنسی کے اندر، بہت سے افسران چینی زبان سیکھ رہے ہیں، حالانکہ ان تمام ملازمتوں کے لیے عام طور سے زبان کی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
حکام نوٹ کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس افسران کو نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے اور یہ کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد بہت سے لوگوں کو انسداد دہشت گردی کے شعبے میں خاص طور سے منتقل کیا گیا تھا اوراہداف کی نشاندہی کی گئی تھی – یہی طریقہ روس اور چین کا مقابلہ کرنے میں بھی کارآمد ہو سکتا ہے۔
سی آئی اے کے ایک سابق سینیرافسراورانسداد دہشت گردی کے مرکز کے نائب سربراہ ڈگلس وائز کا کہنا ہے کہ طویل عرصے سے اس بات پربحث جاری ہے کہ کیا انسداد دہشت گردی نے خفیہ ایجنسیوں کو جاسوسی کے روایتی طریقوں سے بہت دورکر دیا ہے اورکیا دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں سی آئی اے کا کچھ کام فوج کے ماتحت خصوصی دستوں کو کرنا چاہیے۔
ایجنسیوں کو چین اور روس پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے برسوں لگیں گے۔ اس کے لیے صبراوراس کی اہمیت کے ادراک کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے ایجنسی کی مرکزی پالیسی کو بدلنے میں وقت لگے گا۔
وائز نے کہا، "کئی دہائیوں سے، ہم نے انسداد دہشت گردی پر زیادہ توجہ مرکوزکر رکھی ہے ۔ اب اس کو تبدیل کرنے اور نئے سرے سے ڈھالنے کے لیے ہمیں سوچنا ہوگا اور اس کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ، مگر اس میں اتنا وقت نہیں لگے گا کہ ہمارے دشمن اسے دور از کار سمجھ کر آرام سے بیٹھ جائیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا )