|
بین الاقوامی امداد سے متعلق امریکی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) کی ایڈمنسٹریٹر سمینتھا پاور نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک یہ رپورٹس قابل بھروسہ ہیں کہ غزہ کے مشرقی حصے میں قحط شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ انسانی امداد کی ترسیل کے اقدامات میں مزید اضافہ کرے۔
پاور نے بدھ کے روزکانگریس کے سامنے گواہی میں قانون سازوں کو بتایا کہ اس قحط کی وجہ سے غزہ کے تمام حصوں کے شہری اور خاص طور پر بچے شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایک قانون ساز کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پاور نے قحط کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں مشرقی غزہ میں قحط شروع ہو چکا ہے تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدھ کے روز کانگریس کے سامنے پاور کی گواہی کے دوران ٹیکساس سے ڈیموکریٹ نمائندے ہواکن کاسترو نے سلامتی کونسل کو یو ایس ایڈ کی جانب سے بھیجے جانے والے ایک کیبل کے حوالے سے پوچھا تھاکہ کیا آپ کے خیال میں یہ قابل فہم ہے کہ غزہ کے کچھ حصوں، خاص طور پر شمالی غزہ میں پہلے ہی سے قحط ہے؟
پاور کا کہنا تھا کہ یہ نتیجہ خوراک کی عالمی سطح پر مربوط سیکیورٹی کی درجہ بندی کے تحت اخذ کیا گیا ہے اور یہ ایک درست طریقہ کار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ تخمینہ قابل اعتبار ہے۔
پاور نے مزید بتایا کہ شمالی غزہ میں 7 اکتوبر سے پہلے غذائی قلت کی شرح تقریباً صفر تھی۔ اور اب وہاں ہر تین میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق پاور نے اسرائیل کے اس الزام پر بھی بات کی کہ حماس غزہ کے شہریوں کو بھیجی جانے والی امداد چوری کر رہا ہے۔ حماس اس الزام کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ پاور کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اپنی شراکت دار تنظمیوں کی جانب سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حماس نے بڑے پیمانے پر خوراک کی امداد ضبط کی ہو۔
سمینتھا پاور غزہ میں بھوک اور غذائی قلت کی صورت حال پر بات کرنے والی پہلی امریکی عہدے دار نہیں ہیں۔ ان سے قبل، گزشتہ ہفتے برسلز میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کہہ چکے ہیں کہ غزہ کے تمام باشندے خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے نیٹو ہیڈ کوارٹرز میں ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں سے کہا تھا کہ غزہ میں امداد کے داخلے سے متعلق اسرائیل کے اہم اقدامات کے باوجود زمین پر صورت حال انتہائی ناکافی اور ناقابل قبول ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کی سو فیصد آبادی کو علم ہے کہ خوراک کی موجودگی کی سطح شدید حد تک کم ہے۔ سو فی صد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
اسی اثنا میں قبرص کے وزیر خارجہ نے نیکوسیا میں بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں ترسیل کے لیے مشرقی بحیرہ روم کے ایک جزیرے میں مزید انسانی امداد مسلسل پہنچ رہی ہے۔ تاہم فلسطینی علاقے کے لیے بحری راستے سے امداد بھیجنے کا سلسلہ معطل ہے۔
قبرصی وزیر خارجہ کنسٹن ٹینو کومبوس نے جمعرات کے روز صحافیوں کو بتایا کہ قبرصی حکام امریکی فوجی حکام کے ساتھ مل کر امدادی سامان کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ یکم مئی کے لگ بھگ غزہ میں عارضی بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہو جائے گی ،جس کے بعد امداد کی فراہمی بحال ہو جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی کے علاقے میں امداد کی محفوظ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے حفاظتی انتظامات پر نظرثانی کی جا رہی ہے تاکہ ورلڈ سینٹرل کچن جیسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو، جس میں اس امدادی گروپ کے 7 بین الاقوامی کارکن اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق امدادی کارکنوں پر حملہ شناخت کی غلطی کے باعث ہوا، لیکن ورلڈ سینٹرل کچن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امدادی کارکنوں کی نقل و حرکت سے آگاہ تھی اور وہ ان ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی اور نیویارک ٹائمز سے لی گئیں ہیں)