بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یوایس اے آئی ڈی نے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینوں کے لیے تمام امداد روک دی ہے۔
اس فیصلے کا تعلق ایک نئے امریکی قانون کے تحت 31 جنوری کی مقررہ ڈیڈ لائن سے ہے جس میں امداد حاصل کرنے والے غیرملکیوں کو انسداد دہشت گردی کے دعوؤں کے زیادہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس ڈیڈ لائن کے نتیجے میں فلسطینی سیکورٹی فورسز کے لیے 60 ملین ڈالر کی امریکی امداد بھی ختم ہو جائے گی جو اسرائیل کی مدد کے لیے مغربی کنارے میں نسبتاً پرامن رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی سی اے) امریکیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ غیر ملکی امداد حاصل کرنے والوں کے خلاف امریکی عدالتوں میں جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر مقدمے دائر کر سکیں۔
ایک امریکی عہدے دار نے جمعے کے روز خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ مغربی کنارے اور غزہ میں یوایس ایڈ کی تمام معاونت منجمد کر دی گئی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ امداد کب تک رکی رہے گی ۔ لیکن عہدے دار کا کہنا تھا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی علاقوں میں یوایس ایڈ کا مشن بند کر دیا گیا ہے اور یروشلم میں امریکی سفارت خانے میں یو ایس ایڈ کے مشن میں مستقبل کے عملے کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
یوایس ایڈ فلسطینی علاقوں میں امدادی کارروائیاں کرنے والا اہم ادارہ ہے۔ یوایس ایڈ کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے 2017 میں مغربی کنارے اور غزہ میں سرکاری اور غیر سرکاری منصوبوں پر 268 ملین ڈالر صرف کیے تھے۔ لیکن اگلے سال کے دوران ان فنڈز میں نمایاں کمی کر دی گئی۔
فلسطین اتھارٹی کا قیام 1993 کے اوسلو امن معاہدے کے تحت عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کی جانب بڑھنا تھا۔
پچھلے سال واشنگٹن نے فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمددردی کی امداد میں سینکڑوں ملین ڈالر کی کمی کر دی تھی۔ امداد میں کمی کو بڑے پیمانے پر ایک ایسے دباؤ کے حربے کے طور پر دیکھا گیا تاکہ فلسطینی قیادت کو اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت پر آمادہ کیا جا سکے۔
امداد کی بندش کے نتیجے میں فلسطین میں درجنوں غیر سرکاری تنظیموں کو، جو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے منصوبے چلا رہی تھیں، اپنے منصوبے بند اور عملے کو نکالنا پڑا۔
جنوری میں عالمی ادارہ خوراک نے اعلان کیا کہ وہ فنڈز کی کمی کے باعث ایک لاکھ 90 ہزار فلسطینیوں کے لیے خوراک کی مدد روک رہا ہے۔
تاہم سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور فلسطینی کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس کی فورسز کے لیے فنڈنگ بحال ہو سکے۔