کراچی: سندھ کے ساحل سمندر کے ساتھ والے علاقے میں جہاں آلودگی کے باعث آبی حیات کی زندگی اور نسل کم ہوتی جا رہی ہے، وہیں مچھلی کے شکار میں ماہی گیروں کی جانب سے استعمال ہونے والا غیر ممنوعہ جال بھی ہے، جو انکی نسل کشی کا باعث بن رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح مسلسل ممنوعہ جال کا استعمال کیا جاتا رہا تو 2045ء تک یہاں موجود نایاب و قیمتی 'آبی حیات'، مثلاً مخصوص مچھلیاں اور جھینگا، ناپید ہوجائے گا۔
پاکستان فشرفوک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق، کراچی کے علاقے کورنگی میں موجود سندھ کی 22 ’کریکس‘ creeks میں سے 17 کریکس میں ان ممنوعہ جالوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، جن میں گھوڑو کریک، کاجر کریک، مل کریک، پھٹی کریک، دبو کریک، ترچھان کریک، سنہڑی کریک، والڑی کریک، کانیر اور حجامڑو کریکس شامل ہیں۔
سندھ کے اِن مختلف ساحلی مقامات پر 20 سے 25 ہزار ماہی گیر اس جال کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 5000 سے زائد مقامات پر اسکا استعمال ہو رہا ہے۔
ماہی گیری کی زبان میں مچھلیوں کے شکار کیلئے استعمال ہونےوالے اس جال کو ’بھولو گجو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ، ’بھولو گجو‘ جال ماہی گیروں کی کشتیوں میں 24 گھنٹے بندھا رہتا ہے۔
چوں کہ اس کی جالیاں دوسرے عام جالوں سے کہیں باریک اور چھوٹی ہوتی ہیں اسلئے اس میں مچھلیوں اور جھینگوں سمیت ان مچھلیوں کے چھوٹے چھوٹے بچے انڈے سب کے سب پھنس جاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ جال ’سمندر میں جھاڑو کی طرح زمین سے اور سمندری سطح کو چھوتا ہے‘ جس سے اس جال میں 'چاول کے دانے' کے سائز کی تمام آبی حیات پھنستی ہیں اور ہلاک ہوجاتی ہیں۔ نا صرف یہ بلکہ اس جال سے نایاب سمندری پودے جن میں مچھلیوں کی افزائش نسل ہوتی ہے وہ تک سخت متاثر اور تباہ ہوجاتے ہیں۔
پاکستان فشر فوک فورم کے ترجمان کمال شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’سمندر پر حاوی وڈیرہ شاہی اور ماہی گیر مافیا نے اس جال کا استعمال بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھا ہوا ہے، جہاں قانون کے باوجود کسی قسم کی پابندی نہیں ہے‘۔
کمال شاہ نے بتایا کہ ماہی گیروں کو اس بارے میں آگاہی ہے کہ یہ غیر ممنوعہ جال کا استعمال مچھلیوں کی نسل کشی کردیگا، مگر اسکے باوجود، وہ اپنے زائد منافع اور زیادہ مچھلی حاصل کرنے کی لالچ میں، اس جال کا بےجا استعمال کر رہے ہیں۔ ان افراد میں مبینہ طور پر بدعنوان سرکاری افسران اور ماہی گیر مافیا بھی شامل ہے، اور سندھ حکومت کی جانب سے چھوٹی آنکھوں والے جالوں کیخلاف منظور کئے گئے قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
کراچی کی ساحلی سمندر پر مچھلیاں پکڑ کر روزگار حاصل کرنےوالے ایک ماہی گیر نے بتایا ہے کہ ’بھولو گجو جال کا استعمال کرنےوالے ماہی گیر مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ جب مچھلیوں کی نسل کشی ہوجائے گی تو ماہی گیر مچھلی نہیں پکڑ پائیں گے۔‘
سندھ اسمبلی میں اس غیر قانونی جال سے متعلق بنائے گئے قانون کے مطابق، اس جال کا استعمال کرنے والے ماہی گیروں کو دو سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے مختص ہیں۔ سندھ اسمبلی میں غیر ممنوعہ جال کا بل پاس ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
سمندر سے آبی حیات کو بچانے کیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے، وگرنہ وہ دن دور نہیں جب سمندر میں یہاں کے ماہی گیر مچھلی اور جھینگے کے شکار سے محروم ہوجائیں گے۔