طالبان کے ساتھ امن سمجھوتا تمام فریقوں کے مفاد میں ہوگا: خلیل زاد

  • خلیل بگھیو

امریکی نمائندہٴ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ دوحہ میں امریکہ طالبان امن مذاکرات ’’حساس اور پیچیدہ تھے‘‘، جن میں، بقول اُن کے ’’پاکستان نے سہولت کار کا مثبت کردار ادا کیا‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی بحالی سے نہ صرف پورے علاقے اور وسطی ایشیا، بلکہ پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، جس کے ساتھ ماضی میں قریبی اور بہتر دو طرفہ تعلقات رہے ہیں‘‘۔

خلیل زاد نے یہ بات جمعے کو ’یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں ’افغانستان میں امن کے امکانات‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’امن اور مفاہمت کے حوالے سے اب تک جو کام پاکستان نے کیا ہے، ہم اُس کو سراہتے ہیں‘‘۔

ساتھ ہی، خلیل زاد نے کہا کہ افغان طالبان کے سربراہ، ملا غنی برادر ’’امن کے حامی ہونے کا شہرہ رکھتے ہیں‘‘، اور توقعات یہی ہیں کہ امن سمجھوتا طےکرنے میں ’’وہ معاون ثابت ہوں گے‘‘۔

نمائندہٴ خصوصی نے کہا کہ ’’تاریخی طور پر، حقانی نیٹ ورک کا معاملہ امن پر ایک بوجھ رہا ہے، جس دوران پاکستان کا کردار کسی طور پر بھی مثبت نہیں تھا‘‘۔ لیکن، دوحہ بات چیت کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان نے کھل کر اقدام کیے، اور مثبت سہولت کار کا کام انجام دیا، جو بات قابل ستائش ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان علاقے کا ایک اہم ملک ہے، امن کی بحالی ایک اچھا موقعہ ہے جس کا تمام فریق اور وسط ایشیا کے علاوہ پاکستان سمیت خطے کو فائدہ ہوگا‘‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ ماسکو میں روس کی سرپرستی میں افغان سیاسی رہنماؤں اور طالبان کے درمیان دو روزہ بات چیت کا ’’خیر مقدم کرتا ہے‘‘۔ لیکن اُنھوں نے کہا کہ ’’اس کے بارے میں فی الحال کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ دیکھتے ہیں۔ اس کے کامیاب ہونے کا دارومدار دوحہ بات چیت کے اگلے دور پر ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے واضح کیا کہ ’’بی الآخر، طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ 20جولائی کو افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، بہتر ہوگا کہ بین الافغان اور افغان قیادت والی بات چیت کسی سمجھوتے تک پہنچ جائے، جس کے ملکی مستقبل پر تابناک اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنے ابتدائی کلمات میں، خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا محور ‘امریکی فوج کا انخلا‘ نہیں بلکہ ’امن سمجھوتا‘ طے کرنا تھا، جو سب کے بہترین مفاد میں ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کے تنازعے کے خاتمے کے لیے امن عمل میں سہولت کاری کی کوششیں تیز کردی ہیں، جن کا مقصد امریکی قومی سیکورٹی مفادات کو محفوظ بنانا اور افغانستان کے اقتدار اعلیٰ کو تقویت دینا ہے۔

خلیل زاد نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ افغان جنگ اسی سال ختم ہو۔‘‘