القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں گرفتار پاکستانی امریکی جیل سے رہا

(فائل فوٹو)

امریکی حکام نے القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں 17 سال قبل گرفتار کیے گئے پاکستانی عزیر پراچہ کو رہا کر دیا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 40 سالہ عزیر پراچہ کو اپنا گرین کارڈ سرنڈر کرنے کے بعد پاکستان جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

حکومت کے ساتھ عزیر پراچہ کے معاملات طے کرانے والے نیویارک سٹی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر رمزی قاسم نے کہا ہے کہ عزیر پراچہ کی سلیٹ صاف ہے۔ وہ بے قصور ہیں اور پاکستان میں اپنے گھر واپس لوٹ گئے ہیں۔

عزیر پراچہ پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ایک دہشت گرد کے امریکہ میں داخلے میں معاونت کی۔ امریکی حکام نے عزیز پراچہ کی گرفتاری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابی قرار دیا تھا۔ اُنہیں اس الزام کے تحت 30 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

عزیر پراچہ کی رہائی کے لیے امریکی حکام اور اُن کے وکلا کے مذاکرات کئی مہینوں سے جاری تھے۔ دو سال قبل ایک امریکی عدالت نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر عزیر پراچہ کے دوبارہ ٹرائل کا حکم دیا تھا۔

البتہ پراسیکیوٹرز نے دوبارہ ٹرائل سے معذوری ظاہر کی تھی، جس کے بعد عزیر پراچہ کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی۔

عزیر پراچہ گوانتاناموبے جیل میں قید پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ کے بیٹے ہیں۔ 72 سالہ عزیز پراچہ کو سی آئی اے نے 2003 میں القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں بینکاک سے گرفتار کیا تھا۔

سیف اللہ پراچہ پر اب تک نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی اُن پر کبھی کوئی مقدمہ چلایا گیا۔ اُنہیں جنگی قیدی کے قانون کے تحت "ہمیشہ کا قیدی" قرار دیا گیا تھا۔ سیف اللہ پراچہ کو گوانتاناموبے جیل کا سب سے پرانا قیدی بھی قرار دیا جاتا ہے۔