کرونا بحران نے 2020 کے آغاز سے ہی دنیا کو سفری بندشوں اور محدود اقتصادی سرگرمیوں کی طرف دھکیلنا شروع کردیا تھا۔
لیکن موسم بہار میں وائرس کے تیزی سے پھیلنےکے بعد عالمی وباکی صورت اختیار کر لینےکے اس کثیرالجہتی بحران نےاقتصادی ترقی کے پہیے کی رفتار کو مزید سست حتی کہ کئی مقامات پر جامد کر دیا۔
یوں دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر مما لک کو بلا تفریق مشترکہ معاشی اور اقتصادی نقصانات کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اور دنیا کی عظیم ترین معیشتوں سمیت بہت سے ممالک میں ترقی کی شرح منفی رہنے کی پیشگوئی کی گئی۔
عالمی معیشت کو سال بھر کی پابندیوں اور اقتصادی سست روی سے ہونے والے نقصان کا ابھی حتمی تخمینہ تو سامنے نہیں آیا لیکن اس ہفتے جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مختلف عالمی اداروں کی جانب سے نقصان کے بار ے میں کچھ اعدادو شمار پیش کیے ہیں۔
عالمی معیشت کو کتنا نقصان ہوا
مارچ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے تجارت اور ترقی کے ادارے یو این سی ٹی اے ڈی نے کہا کہ اس سال دنیا کو ایک ٹریلیئن ڈالر کا اقتصادی نقصاں اٹھانا پڑے گا۔
چند ماہ بعد اقتصادی اور سماجی ترقی کے ادارے ڈی ای ایس نے کہا کہ عالمی اقتصادی ترقی کی شرح تین اعشاریہ دو فیصد تک سکڑے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کو آٹھ اعشاریہ پانچ ٹریلیئن ڈالر کا نقصان ہو گا۔
دوسری طرف مئی میں انٹرنیشنل لیبر آرگینائزیشن نے نتبیہ کی کہ لاک ڈاون کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریبا نصف تعداد میں ورکرز کے روزگار کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ ایک ماہ کے بعد عالمی بینک نے اس با ت کی تصدیق کی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا اس سال بد ترین کساد باازاری کا شکار رہے گی۔
ان پیشگوئییوں کے پیش نظر عالمی بنک اور قومی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف نے اقوام متحدہ کو کئی بلیئن ڈالر مہیا کیے تاک ترقی پزیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو اس بحران میں بروقت امداد دی جاسکے۔
ترقی پزیر ممالک کی مشکلات
لیکن اس امدادی اقدام کے باوجود ترقی پزیر ممالک کے چھے ارب لوگوں کو ایک تاریک صورت حال میں دھکیل دیا۔اور ماہرین نے کہا کہ اب ان ممالک کے لوگوں کا ایک مالی سونامی کی طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان حالات میں کم مہارت رکھنے والے کارنکنان بری طرح متاثر ہوئے کیونکہ سروسز کے شعبے میں بہت سے روزگار ختم ہوگئے۔ خاص طور پر نوجوان لوگوں کے لیے یہ کٹھن دور رہاکیونکہ اعدادو شمار کے مطابق مئی تک ہر چھے میں سے ایک نوجوان نے کام کرنا چھوڑدیا تھا اور جو لوگ کام کرتے رہے ان کے کام کرنے کے دورانیے میں 23 فیصد کمی ہوئی۔
امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے مسائل سے کیسے نمٹا
امریکہ سمیت دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں صورت حال بہتر رہی کیونکہ حکومتوں کی طرف سے دیے گئے امدادی پیکج اور چھوٹے درجے کے کاروباروں کے لیے قرض دینے کی سہولتوں نے معیشت کو سہارا دیا۔
لیکن ہوائی سفر پر پابندی اور وائرس کی دوسری لہر نے تمام شعبوں میں ترقی کی امکانات پر منفی اثرات مرتب کیے۔
واشنگٹن میں امریکی کانگرس اور وائٹ ہاوس کی منظوری سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 27 مارچ کو امریکی کی تاریخ کے سب سے بڑے دو ٹریلیئن ڈالر کے ریلیف پیکج پر دسخط کیے جس سے کم آمدنی ، بے روزگار ہونے والے افراد اور چھوٹے ردجے کے کاروبار کو امداد دی گئی۔
SEE ALSO: صدر ٹرمپ نے کرونا ریلیف اور حکومتی اخراجات بل پر دستخط کر دیےیوں صارفین کے ہاتھ میں آنی والی رقم ا ور امریکہ کے کچھ شعبوں اور وائرس سے کم متاثرہ ریاستوں میں اقتصادی کاروائیوں میں تیزی آئی لیکن موسم گرما کے اختتام اور سردی کے آنے سے کرونا کی دوسری لہر نے بے روزگاری میں اضافہ کردیا۔
اس ہفتے کانگرس میں پاس ہونے والے بل کی وائٹ ہاوس کی منظوری کے بعد تقریباً نو سو بلیئن ڈالر کے دوسرے پیکج کا اعلان کیا گیاہے۔
ویکسین امید کی کرن بن کر آئی
تاہم ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں اہم ترین خبر بیک وقت کووڈ نائنٹین کے مرض سے بچاو کی ویکسینز کے استعمال کی منظوری کی صورت میں آئی ہے۔ ایک طرف تو لوگوں کی صحت کے دفاع میں مدد ملے گی اور دوسری طرف اقتصادی کاروائیاں بحال کی جاسکیں گی۔
اب امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں کووڈنائنٹین سے بچاو کی ویکسین دینے کی مہم جاری ہے۔
ساتھ ہی اقوام متحدہ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ترقی پزیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو ویکسین پہنچانا اس عالمی وبا سے نجات میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس تیزی سے پھیلتے وائرس سے چھٹکارا صرف تمام لوگوں اور ممالک کو محفوظ کر کے ہی کیا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق معیشت کی بحالی اور لوگوں کو مالی بحران سے نکا لنے کے لیےممالک کو تمام افراد کے لیے ایک کم از کم یونیورسل آمدنی مقرر کرنا ضروری ہے۔
ویکسین کے کامیات تجربات اور ممکنہ استعمال کی خبر آنے پر اقتصادی تعاون اور ترقیاتی ادارےاو ای سی ڈی نے اس ماہ کہا کہ دنیا نے وائرس بحران کے معیشت کے بدترین چیلنجز کو جھیل لیا ہے۔ اور اچھی خبر یہ ہے کی ترقی کا بنیادی ڈھانچہ برقرار ہے اور اب معیشت کو تیزی سے بحال کیا جاسکتا ہے۔
اقتصادی بحالی کے روشن ہوتے ہوئے امکانات
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ویکسین کے استعمال اور کام کرنے کی جگہوں پر احتیاطی تدابیر کے ساتھ سال 2021 میں اقتصادی سرگرمیاں کرونا بحران سے پہلے کی سطح پر لوٹنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
نتیجتاً اقتصادی ترقی کی ریٹنگ کے ادارے گلوبل اکنامک آوٹ لک نے کہا ہے کہ دنیا کی معیاشی نمو میں اب چار اعشاریہ چار فیصد کی بجائے تین اعشاریہ سات فیصد کی کی واقع ہو گی۔
فچ ریٹنگز نامی معیشت پر نظر رکھنے والی کمپنی کے اعلی ترین ماہر اقتصادیات برائن کولٹن کہتے ہیں کہ اب امید افزا ماحول میں اگلے سال عالمی میعشت پانچ اعشاریہ تین کی رفتار سے بڑھے گی اور سال کے دوسرے حصے میں اقتصادی کاروائیاں بڑے پیمانے پر واپس آ جائیں گی۔
ان کے مطابق امریکہ کی معشت کی شرح نمو بڑھ کر چار اعشاریہ پانچ جبکہ چین کی ترقی کی شرح بڑھ کر آتھ فی صد ہو جائے گی۔ تاہم یورپ میں شرح نمو گھٹ کر چار اعشاریہ سات فیصد سے آگے بڑھے گی۔