بیشتر کیس جو سامنے آئے ہیں وہ امریکہ میں ہوئے ہیں۔ یہاں 1950ء سے اب تک، تقریباً 15,000 افراد کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی ایسی ہی زیادتیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ویٹیکن سٹی —
منگل کے روز ویٹیکن میں رومن کیتھولیک کارڈنلز کے اجتماعات شروع ہوں گے ۔ اگلے پوپ کے لیے اپنے ووٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ، ایک مسئلہ جس پر بات چیت ہوگی وہ پادریوں کی جنسی زیادتیوں کا تنازع ہے ۔ ان زیادتیوں کا شکار ہونے والے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ چرچ نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی کوشش کی ہے اور انہیں یقین نہیں کہ اگلے پوپ کوئی بڑی تبدیلیاں لائیں گے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار جیروم سوکولووسکائی زیادتی کا شکار ہونے والی ایک امریکی خاتون بیکی ایانی سے ملے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی عمر آٹھ یا نو برس کی تھی جب ان کے ساتھ زیادتی شروع ہوئی۔
بیکی ایانی نے بتایا کہ جب ان سے زیادتی شروع ہوئی تو انھوں نے اپنے تراش دیے۔’’وہ میرے بالوں کو چھوا کرتا تھا۔ در اصل وہ اپنے ہاتھوں سے میری آبرو لوٹا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ چرچ کے لباس خانے میں ، وہ میرے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میری اسکول کی یونیفارم پر ملنے شروع کر دیے۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد میں ہر وقت سویٹر پہنے رہتی تھی، اوراس طرح اپنے آپ کو اس کی زیادتیوں سے بچاتی تھی ۔‘‘
ایانی کہتی ہیں کہ ان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کوئی جنسی حرکت ہے۔ ’’مجھے بس یہ احساس تھا کہ یہ کوئی غلط کام ہے، کوئی گندی حرکت ہے۔ اور میں نے ایک دفعہ بھی اسے الزام نہیں دیا۔ میں تو سو فیصد اپنے آپ کو الزام دیتی تھی کیوں کہ میں سوچتی تھی کہ میں ضرور کوئی چھوٹی سی گندی بچی ہوں۔ اسی لیے خدا مجھے سزا دے رہا ہے ۔ ‘‘
ایانی نے بتایا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص نیا نیا پادری بنا تھا، اور سینٹ میری اس کا اس کا پہلا چرچ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جس شخص نے زیادتی کی وہ ریورنڈ ولیم ٹی ریئنیک تھا جو الیگزینڈریا، ورجینیا کے چرچ کا پادری تھا۔
’’اس نے 1992 میں خود کشی کرلی جب اس کی زیادتی کا شکار ہونے والے ایک اور فرد ، ایک آلٹر بوائے نے، اس پر زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔‘‘
ایانی اب زیادتیوں کا شکار ہونے والوں کے ایک گروپ ویٹیکن اسکینڈل کی ترجمان ہیں۔ یہ گروپ چاہتا ہے کہ بچوں کی حفاظت نہ کرنے کے جرم میں، پوپ بینیڈکٹ پر مقدمہ چلایا جائے۔
لیکن پاپائیت کے سوانح نگار مارکو پولیٹی کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتیاں کرنے والے پادریوں کی سرزنش کے لیے، بینیڈکٹ نے اپنے پیشرو جان پال دوم سے کہیں زیادہ کام کیا ۔’’پوپ کی حیثیت سے رتزنگر یقیناً ایک نیا باب رقم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ایسے ضابطے بنائے جو کہیں زیادہ سخت ہیں۔ انھوں نے کسی قسم کی زیادتی کو مطلق برداشت نہ کرنے کی پالیسی شروع کی ۔ اس کے ساتھ ہی، اب بھی ایسے بہت سے گمنام افراد موجود ہیں جن کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور جن کے کیس ابھی تک سربستہ راز ہیں۔‘‘
بیشتر کیس جو سامنے آئے ہیں وہ امریکہ میں ہوئے ہیں۔ یہاں 1950ء سے اب تک، تقریباً 15,000 افراد کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی ایسی ہی زیادتیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں یہ لعنت کس حد تک پھیلی ہوئی ہے کیوں کہ بہت سے ملکوں میں اس قسم کے واقعات پر بات چیت کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ میں، ایک حالیہ سروے میں پتہ چلا ہے کہ ہر تین میں سے ایک کیتھولک کا خیال ہے کہ چرچ کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں یہ مسئلہ اہم ترین ہے۔
نئے پوپ کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجتماع سے پہلے، شکاگو کے آرچ بشپ فرانسس جارج نے کہا کہ اگلے پوپ کو کوئی زیادتی برداشت نہیں کرنی چاہیئے۔’’لیکن زیادتیوں کا شکار ہونے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ یہ زخم بڑا گہرا ہے اور ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ جب تک یہ لوگ زندہ ہیں، ہم سب بھی ان کے دکھ سے متاثر ہوتے رہیں گے ۔ یہ زخم بھرنے میں بہت وقت لگے گا۔‘‘
ایانی کہتی ہیں کہ انہیں چرچ نے تصفیے کے لیے ایک رقم ادا کی لیکن شروع میں اس نے بڑے حیلے بہانے بنائے ۔ ’’میں سمجھتی ہوں ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اپنی حفاظت کی جائے، اپنی ساکھ کو بچایا جائے ۔‘‘
انہیں امید ہے کہ نئے پوپ کے تحت حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب تک تو چرچ نے اس وقت تک کچھ نہیں کیا جب تک کہ اسے مجبور نہ کر دیا گیا ہو۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار جیروم سوکولووسکائی زیادتی کا شکار ہونے والی ایک امریکی خاتون بیکی ایانی سے ملے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی عمر آٹھ یا نو برس کی تھی جب ان کے ساتھ زیادتی شروع ہوئی۔
بیکی ایانی نے بتایا کہ جب ان سے زیادتی شروع ہوئی تو انھوں نے اپنے تراش دیے۔’’وہ میرے بالوں کو چھوا کرتا تھا۔ در اصل وہ اپنے ہاتھوں سے میری آبرو لوٹا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ چرچ کے لباس خانے میں ، وہ میرے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میری اسکول کی یونیفارم پر ملنے شروع کر دیے۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد میں ہر وقت سویٹر پہنے رہتی تھی، اوراس طرح اپنے آپ کو اس کی زیادتیوں سے بچاتی تھی ۔‘‘
ایانی کہتی ہیں کہ ان کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کوئی جنسی حرکت ہے۔ ’’مجھے بس یہ احساس تھا کہ یہ کوئی غلط کام ہے، کوئی گندی حرکت ہے۔ اور میں نے ایک دفعہ بھی اسے الزام نہیں دیا۔ میں تو سو فیصد اپنے آپ کو الزام دیتی تھی کیوں کہ میں سوچتی تھی کہ میں ضرور کوئی چھوٹی سی گندی بچی ہوں۔ اسی لیے خدا مجھے سزا دے رہا ہے ۔ ‘‘
ایانی نے بتایا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص نیا نیا پادری بنا تھا، اور سینٹ میری اس کا اس کا پہلا چرچ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جس شخص نے زیادتی کی وہ ریورنڈ ولیم ٹی ریئنیک تھا جو الیگزینڈریا، ورجینیا کے چرچ کا پادری تھا۔
’’اس نے 1992 میں خود کشی کرلی جب اس کی زیادتی کا شکار ہونے والے ایک اور فرد ، ایک آلٹر بوائے نے، اس پر زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔‘‘
ایانی اب زیادتیوں کا شکار ہونے والوں کے ایک گروپ ویٹیکن اسکینڈل کی ترجمان ہیں۔ یہ گروپ چاہتا ہے کہ بچوں کی حفاظت نہ کرنے کے جرم میں، پوپ بینیڈکٹ پر مقدمہ چلایا جائے۔
لیکن پاپائیت کے سوانح نگار مارکو پولیٹی کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتیاں کرنے والے پادریوں کی سرزنش کے لیے، بینیڈکٹ نے اپنے پیشرو جان پال دوم سے کہیں زیادہ کام کیا ۔’’پوپ کی حیثیت سے رتزنگر یقیناً ایک نیا باب رقم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ایسے ضابطے بنائے جو کہیں زیادہ سخت ہیں۔ انھوں نے کسی قسم کی زیادتی کو مطلق برداشت نہ کرنے کی پالیسی شروع کی ۔ اس کے ساتھ ہی، اب بھی ایسے بہت سے گمنام افراد موجود ہیں جن کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور جن کے کیس ابھی تک سربستہ راز ہیں۔‘‘
بیشتر کیس جو سامنے آئے ہیں وہ امریکہ میں ہوئے ہیں۔ یہاں 1950ء سے اب تک، تقریباً 15,000 افراد کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی ایسی ہی زیادتیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں یہ لعنت کس حد تک پھیلی ہوئی ہے کیوں کہ بہت سے ملکوں میں اس قسم کے واقعات پر بات چیت کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ میں، ایک حالیہ سروے میں پتہ چلا ہے کہ ہر تین میں سے ایک کیتھولک کا خیال ہے کہ چرچ کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں یہ مسئلہ اہم ترین ہے۔
نئے پوپ کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجتماع سے پہلے، شکاگو کے آرچ بشپ فرانسس جارج نے کہا کہ اگلے پوپ کو کوئی زیادتی برداشت نہیں کرنی چاہیئے۔’’لیکن زیادتیوں کا شکار ہونے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ یہ زخم بڑا گہرا ہے اور ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ جب تک یہ لوگ زندہ ہیں، ہم سب بھی ان کے دکھ سے متاثر ہوتے رہیں گے ۔ یہ زخم بھرنے میں بہت وقت لگے گا۔‘‘
ایانی کہتی ہیں کہ انہیں چرچ نے تصفیے کے لیے ایک رقم ادا کی لیکن شروع میں اس نے بڑے حیلے بہانے بنائے ۔ ’’میں سمجھتی ہوں ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اپنی حفاظت کی جائے، اپنی ساکھ کو بچایا جائے ۔‘‘
انہیں امید ہے کہ نئے پوپ کے تحت حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب تک تو چرچ نے اس وقت تک کچھ نہیں کیا جب تک کہ اسے مجبور نہ کر دیا گیا ہو۔