گذشتہ ہفتے فرانسیسی پارلیمنٹ نےعوامی مقامات پر مسلمان خواتین کے برقعہ کے خلاف ایک بل منظور کیا۔۔اس کے بعد اب سپین سمیت کئی اوریورپی ممالک بھی ایسے ہی اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔۔ فرانسیسی قانون دان اس بل کو حکومت کی سیکولر سوچ کا عکاس قرار دے رہے ہیں ، تاہم کئی تنظیموں کاکہنا ہے کہ یہ نیا قانون مذہبی آزادیوں کے حقوق کے منافی ہے۔
فرانس کی ایک یونیورسٹی میں زیر ِ تعلیم خاتون مریم بل خیر مغربی انداز کے مطابق زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ مسلمان ہیں مگر حجاب لینا پسند نہیں کرتیں۔ انکا کہنا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ انہیں بتائے کہ وہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریقے سے مذہب اپنائے۔ میرے خیال میں فرانس میں برقع کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر فرانسیسی حکومت کو توجہ دینی چاہیئے۔
فرانس کے جنوبی شہر اینیون میں رہنے والی کنزا دریدر اسلامی عقائد کی سختی سے پابندی کرتی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے برقع اور نقاب پہنتی ہیں۔اور نئے قانون کی خلاف ورزی پر انہیں دو سو ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں اپنا نقاب نہیں چھوڑ سکتی، کبھی نہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں دو ہزار سے زیادہ خواتین مکمل طورپر اسلامی نقاب اور برقع پہنتی ہیں۔ مگر فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا یہ عمل فرانسیسی اقدار کے منافی ہے۔ اسی لیے پارلیمنٹ میں برقع پر پابندی کے خلاف 335 اور اور اس کے حق میں محض ایک ووٹ پڑا۔
حکمران جماعت یو ایم پی کےجیکوس مائرڈ جو برقع پر پابندی کے حامی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ پابندی مسلمانوں پر نہیں ہے بلکہ یہ قانون فرانسیسی انقلاب اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے سیکولرازم کی پاسداری کے لیے ضروری ہے۔وہ کہتے ہیں کہ برقع ہمارے ماضی، ہماری روایات اور سیکولرازم کے منافی ہے، اور سیکیورٹی کے بھی خلاف ہے کیونکہ آپ یہ نہیں جانتے کہ برقع کے پیچھے کون ہے۔
جس روز برقع کے خلاف بل پیش ہوا ۔اس سے اگلے روز فرانس میں باسٹل ڈے منایا گیا جو 1789 ءکے انقلاب کی یاد تازہ کرتا ہے۔محمد ہینش کا کہنا ہے کہ یہ اس بل کو پاس کرنے کا نامناسب وقت تھا۔ پیرس کے علاقے سینٹ ڈینس میں یونین آف مسلم ایسوسی ایشین اراکین نے اس بل پر بحث کی۔ ان کے مطابق یہ بل فرانس کو متحد کی بجائے اس ملک میں آباد 50 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی ایک کارروائی ہے۔
محمد ہینش کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر بحث نے جلد ہی برقع پر پابندی کو ایک قانونی شکل دے دی۔ اسی طرح مساجد کے مینار وں پر پابندی کا معاملہ ہے۔ اگر آپ ان چیزوں کو نظر میں رکھیں تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو اصل مسئلہ اسلام سے ہے۔
2005ء کے فسادات کے بعد سے حکومت نے پیرس کے شمالی مشرقی حصے میں رہنے والے مسلمانوں سے اچھا سلوک روانہیں رکھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ برقع اور نقاب کے خلاف پابندی کے بل سے پیرس اور پورے فرانس میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔
ابھی سینیٹ سے اس بل کی منظوری باقی ہے جبکہ منظوری کے حوالے سےبہت سی دشواریاں بھی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل سے فرانسیسی انقلاب کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ کہ اس مسئلے کوانسانی حقوق کی یورپین عدالت میں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق فرانس کی زیادہ تر آبادی اس پابندی کے حق میں ہے۔ مگر مریم اور کنزیٰ کے لیے اس بات کے باوجود کہ وہ مذہب کو کس طرح اختیار کرتی ہیں ، نیا قانون ان کے مذہبی حقوق کے منافی ہے۔