نمائش پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے میں صرف 12 پینٹنگز بچی ہیں جب کہ باقی برباد ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
نئی دہلی —
بھارت کی ریاست گجرات کے شہر احمدآباد میں منعقد ہونے والی بھارتی اور پاکستانی مصوروں کے فن پاروں کی نمائش میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کے الزام میں ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشد کے نو کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار شدگان میں تنظیم کا ایک عہدیدار بھی شامل ہے۔
تیرہ سے 18 اگست تک ہونے والی اس نمائش میں 11 پاکستانی اور 6 بھارتی مصوروں کے 35فن پاروں کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔
نمائش پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے میں صرف 12 پینٹنگز بچی ہیں جب کہ باقی برباد ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
جس گیلری میں یہ نمائش لگائی گئی تھی اس کا نام 'امداود نی گوفا' ہے جسےبین الاقوامی شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین اور معروف آرکیٹکٹ بی وی ڈوشی نے قائم کیا تھا۔
گیلری کے انچارج وپل پرجاپتی کے مطابق یہ نمائش ایک ٹریولنگ شو کا حصہ تھی۔ بیس روز قبل ممبئی کے دادر میں یہ نمائش لگائی گئی تھی جسے شیو سینا کے راج اور اودھو ٹھاکرے بھی دیکھنے آئے تھے۔
گلیری کے انچار کے بقول، "ہم نے سوچا تھا کہ یہاں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ یہاں پولیس کا حفاظتی انتظام تھا۔ دو روز تک پولیس موجود تھی مگر 15 اگست کو دوسری جگہ ڈیوٹی لگنے کی وجہ سے پولیس چلی گئی تھی۔ 16اگست کو وشو ہندو پریشد کے کچھ کارکن آئے او رانھوں نے توڑ پھوڑ مچانی شروع کر دی"۔
آرٹ گیلری کے ٹرسٹی انل ریلیا کے مطابق اس شو کی پلاننگ چھ ماہ قبل کی گئی تھی۔ اس گیلری میں اس سے قبل بھی اس طرح کے متعدد شوز منعقد ہو چکے ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کنٹرول لائن پر ہونے والے چند واقعات کے سبب کشیدگی کا ماحول ہے اور دونوں ملکوں کے سنجیدہ افراد مذاکرات کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں، وشو ہندو پریشد کی اس حرکت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔
سابق آئی اے ایس افسر، سرکردہ انسانی حقوق کارکن، 'سینٹر فار اسٹڈی ایکویٹیز' کے ڈائرکٹر اور 'رائٹ ٹو فوڈ' کیس میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے اسپیشل کمشنر ہرش مندر نے 'وائس آف امریکہ' سے بات چیت میں اس واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ ان واقعات سے ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات نہیں چاہتے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ وشو ہندو پریشد بھی انہی تنظیموں میں شامل ہے جو پاک بھارت دوستی کی مخالف ہیں۔ ان کے بقول اس قسم کے لوگ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ چاہتے ہیں اور اسی لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔
ہرش مندر نے اس سوال پر کہ وشو ہندو پریشد کے ایک کارکن نے کہا ہے کہ پریشد کے لوگ اس میں ملوث نہیں ہیں یہ کارروائی بلکہ غنڈہ عناصر کی ہے، کہا کہ ایسی تنظیموں کا ایک وتیرہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی غلط حرکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ حرکت انہی لوگوں کی ہے اور اسی لیے پولیس نے پریشد کے ایک اہم لیڈر سمیت نو کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ہرش مندر کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ملک آپس میں بات چیت کریں اور مذاکرات کو آگے بڑھائیں۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور نواز شریف کو نیو یارک میں ملاقات کرنی چاہیے اور مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے۔
کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان م۔ افضل نے بھی وشو ہندو پریشد کی اس ہنگامہ آرائی کی مذمت کی اور کہا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔
انھوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ مسائل کو بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
م۔ افضل نے اس سوال پر کہ کیا نیو یارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو ملاقات کرنی چاہیے؟ کہا کہ بھارتی حکومت ہمیشہ بات چیت کے حق میں رہی ہے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے سامنے بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ادھر وشو ہندو پریشد اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی ہے، اس قسم کی نمائش کا کوئی جواز نہیں تھا۔
وشو ہندو پریشد کے گجرات یونٹ کے جنرل سکریٹری رن چھوڑ بھاردواج کا کہنا ہے، "پاکستان کے فوجی سرحد پر ہمارے فوجیوں کے سر قلم کر رہے ہیں اور پاکستان نے بھارت کے خلاف درپردہ جنگ چھیڑ رکھی ہے، ایسے میں پاکستانی مصوروں کی پینٹنگس کو کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟"
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے جس کی فوج سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ان کے بقول، "یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف جنگ کرتا رہے اور ہم اس کے فنکاروں کو یہاں بلا کر ان کی عزت افزائی کرتے رہیں"۔
وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے پریشد کے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور انھیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے اس کارروائی کو ووٹ حاصل کرنے کی سیاست قرار دیا ہے اور ریاستی حکومت کو اس کا ذمہ دار بتایا ہے۔
یاد رہے کہ پروین توگڑیا اور نریندر مودی ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب توگڑیا نے کھل کر ریاستی حکومت کے خلاف بیان دیا ہے۔
توگڑیا نے مزید کہا کہ پاکستانی فنکاروں کی مخالفت ہونی چاہیے اور ان کے فن پاروں کی نمائش لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن پولیس ایسا کرنے کے بجائے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں کو گرفتار کر ہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
اسی درمیان شو کے منتظم رویندر مراڈیا کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے وشو ہندو پریشد کے کارکن ہیں اور ان کے اس شو کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ گزشتہ 66 برسوں کے دوران پاکستان میں مصوری کے شعبے میں کیا ترقی ہوئی ہے۔
انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ شو میں توڑ پھوڑ کی حرکت پریشد کے لوگوں کی نہیں ہوگی بلکہ غیر سماجی عناصر کی کارروائی ہوگی۔
حالانکہ پریشد کے ذمہ داروں نے خود اس توڑ پھوڑ کا اعتراف کیا ہے۔
رویندر مراڈیا ممبئی کے ایک صنعت کار ہیں اور ادھر کافی عرصے سے پریشد میں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے اور ڈاکٹر من موہن سنگھ اور نواز شریف کی نیو یارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات پر غیر یقینی کے بادل چھا گئے ہیں، اس قسم کی حرکتوں کو دونوں ملکوں کے مابین مزید کشیدگی پیدا کرنے والی حرکت سمجھا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین اس کا ایک اور پہلو بھی دیکھ رہے ہیں۔ 2014ء میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی کے پاس اس وقت کوئی ایشو نہیں ہے۔ لہٰذا بی جے پی، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد وغیرہ کی جانب سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش میں وشو ہندو پریشد نے اجودھیا کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے اجودھیا کی "چوراسی کوسی پریکرما" کا اعلان کیا ہے جس پر یو پی حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پریکرما یعنی اس علاقے میں واقع چار پانچ اضلاع کے گرد چکر لگا کر پھر واپس اجودھیا پہنچنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ انتخابات کے موقع پر ماحول کو خراب کیا جائے تاکہ ہندووں اور مسلمانوں میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ سکے۔
اس سے قبل جب گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو بی جے پی الیکشن مہم کمیٹی کا صدر او ران کے دائیں بازو اور ایک جعلی پولیس مقابلے کے معاملے میں جیل کی ہوا کھا چکے امت شاہ کو یو پی کا انچارج بنایا گیا تو امت شاہ نے اجودھیا کا دورہ کر کے وہاں رام مندر کی تعمیر کا عہد کیا تھا۔
احمد آباد میں نمائش کے خلاف کارروائی سے قبل ایک پاکستانی صوفی سنگر صنم ماروی کو دہلی میں پروگرام نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ وشو ہندو پریشد اور شیو سینا نے ان کے خلاف ہنگامہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تیرہ سے 18 اگست تک ہونے والی اس نمائش میں 11 پاکستانی اور 6 بھارتی مصوروں کے 35فن پاروں کو نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔
نمائش پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے میں صرف 12 پینٹنگز بچی ہیں جب کہ باقی برباد ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
جس گیلری میں یہ نمائش لگائی گئی تھی اس کا نام 'امداود نی گوفا' ہے جسےبین الاقوامی شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین اور معروف آرکیٹکٹ بی وی ڈوشی نے قائم کیا تھا۔
گیلری کے انچارج وپل پرجاپتی کے مطابق یہ نمائش ایک ٹریولنگ شو کا حصہ تھی۔ بیس روز قبل ممبئی کے دادر میں یہ نمائش لگائی گئی تھی جسے شیو سینا کے راج اور اودھو ٹھاکرے بھی دیکھنے آئے تھے۔
گلیری کے انچار کے بقول، "ہم نے سوچا تھا کہ یہاں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ یہاں پولیس کا حفاظتی انتظام تھا۔ دو روز تک پولیس موجود تھی مگر 15 اگست کو دوسری جگہ ڈیوٹی لگنے کی وجہ سے پولیس چلی گئی تھی۔ 16اگست کو وشو ہندو پریشد کے کچھ کارکن آئے او رانھوں نے توڑ پھوڑ مچانی شروع کر دی"۔
آرٹ گیلری کے ٹرسٹی انل ریلیا کے مطابق اس شو کی پلاننگ چھ ماہ قبل کی گئی تھی۔ اس گیلری میں اس سے قبل بھی اس طرح کے متعدد شوز منعقد ہو چکے ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ بھارت اور پاکستان کے مابین کنٹرول لائن پر ہونے والے چند واقعات کے سبب کشیدگی کا ماحول ہے اور دونوں ملکوں کے سنجیدہ افراد مذاکرات کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں، وشو ہندو پریشد کی اس حرکت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔
سابق آئی اے ایس افسر، سرکردہ انسانی حقوق کارکن، 'سینٹر فار اسٹڈی ایکویٹیز' کے ڈائرکٹر اور 'رائٹ ٹو فوڈ' کیس میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے اسپیشل کمشنر ہرش مندر نے 'وائس آف امریکہ' سے بات چیت میں اس واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ ان واقعات سے ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات نہیں چاہتے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ وشو ہندو پریشد بھی انہی تنظیموں میں شامل ہے جو پاک بھارت دوستی کی مخالف ہیں۔ ان کے بقول اس قسم کے لوگ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ چاہتے ہیں اور اسی لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔
ہرش مندر نے اس سوال پر کہ وشو ہندو پریشد کے ایک کارکن نے کہا ہے کہ پریشد کے لوگ اس میں ملوث نہیں ہیں یہ کارروائی بلکہ غنڈہ عناصر کی ہے، کہا کہ ایسی تنظیموں کا ایک وتیرہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی غلط حرکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ حرکت انہی لوگوں کی ہے اور اسی لیے پولیس نے پریشد کے ایک اہم لیڈر سمیت نو کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ہرش مندر کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ملک آپس میں بات چیت کریں اور مذاکرات کو آگے بڑھائیں۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور نواز شریف کو نیو یارک میں ملاقات کرنی چاہیے اور مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے۔
کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان م۔ افضل نے بھی وشو ہندو پریشد کی اس ہنگامہ آرائی کی مذمت کی اور کہا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔
انھوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ مسائل کو بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
م۔ افضل نے اس سوال پر کہ کیا نیو یارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو ملاقات کرنی چاہیے؟ کہا کہ بھارتی حکومت ہمیشہ بات چیت کے حق میں رہی ہے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی ہمیشہ یہی کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے سامنے بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ادھر وشو ہندو پریشد اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی ہے، اس قسم کی نمائش کا کوئی جواز نہیں تھا۔
وشو ہندو پریشد کے گجرات یونٹ کے جنرل سکریٹری رن چھوڑ بھاردواج کا کہنا ہے، "پاکستان کے فوجی سرحد پر ہمارے فوجیوں کے سر قلم کر رہے ہیں اور پاکستان نے بھارت کے خلاف درپردہ جنگ چھیڑ رکھی ہے، ایسے میں پاکستانی مصوروں کی پینٹنگس کو کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟"
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے جس کی فوج سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ان کے بقول، "یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف جنگ کرتا رہے اور ہم اس کے فنکاروں کو یہاں بلا کر ان کی عزت افزائی کرتے رہیں"۔
وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے پریشد کے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور انھیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے اس کارروائی کو ووٹ حاصل کرنے کی سیاست قرار دیا ہے اور ریاستی حکومت کو اس کا ذمہ دار بتایا ہے۔
یاد رہے کہ پروین توگڑیا اور نریندر مودی ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب توگڑیا نے کھل کر ریاستی حکومت کے خلاف بیان دیا ہے۔
توگڑیا نے مزید کہا کہ پاکستانی فنکاروں کی مخالفت ہونی چاہیے اور ان کے فن پاروں کی نمائش لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن پولیس ایسا کرنے کے بجائے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں کو گرفتار کر ہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
اسی درمیان شو کے منتظم رویندر مراڈیا کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے وشو ہندو پریشد کے کارکن ہیں اور ان کے اس شو کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ گزشتہ 66 برسوں کے دوران پاکستان میں مصوری کے شعبے میں کیا ترقی ہوئی ہے۔
انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ شو میں توڑ پھوڑ کی حرکت پریشد کے لوگوں کی نہیں ہوگی بلکہ غیر سماجی عناصر کی کارروائی ہوگی۔
حالانکہ پریشد کے ذمہ داروں نے خود اس توڑ پھوڑ کا اعتراف کیا ہے۔
رویندر مراڈیا ممبئی کے ایک صنعت کار ہیں اور ادھر کافی عرصے سے پریشد میں ان کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے اور ڈاکٹر من موہن سنگھ اور نواز شریف کی نیو یارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات پر غیر یقینی کے بادل چھا گئے ہیں، اس قسم کی حرکتوں کو دونوں ملکوں کے مابین مزید کشیدگی پیدا کرنے والی حرکت سمجھا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین اس کا ایک اور پہلو بھی دیکھ رہے ہیں۔ 2014ء میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی کے پاس اس وقت کوئی ایشو نہیں ہے۔ لہٰذا بی جے پی، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد وغیرہ کی جانب سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اتر پردیش میں وشو ہندو پریشد نے اجودھیا کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے اجودھیا کی "چوراسی کوسی پریکرما" کا اعلان کیا ہے جس پر یو پی حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پریکرما یعنی اس علاقے میں واقع چار پانچ اضلاع کے گرد چکر لگا کر پھر واپس اجودھیا پہنچنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ انتخابات کے موقع پر ماحول کو خراب کیا جائے تاکہ ہندووں اور مسلمانوں میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ سکے۔
اس سے قبل جب گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو بی جے پی الیکشن مہم کمیٹی کا صدر او ران کے دائیں بازو اور ایک جعلی پولیس مقابلے کے معاملے میں جیل کی ہوا کھا چکے امت شاہ کو یو پی کا انچارج بنایا گیا تو امت شاہ نے اجودھیا کا دورہ کر کے وہاں رام مندر کی تعمیر کا عہد کیا تھا۔
احمد آباد میں نمائش کے خلاف کارروائی سے قبل ایک پاکستانی صوفی سنگر صنم ماروی کو دہلی میں پروگرام نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ وشو ہندو پریشد اور شیو سینا نے ان کے خلاف ہنگامہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا تھا۔