آسیان' اتحاد کسی بڑی طاقت کی 'پراکسی' نہیں بنے گا: صدر انڈونیشیا

امریکی نائب صدر کاملہ ہیرس انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں آسیان اجلاس میں صدر بائیڈن کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کے اتحاد آسیان کے رہنماوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میانمار کو طے شدہ میعاد کے مطابق 2026 میں آسیان اتحاد کی قیادت نہیں سونپی جائے گی۔یہ بات آسیان اجلاس کے پہلے دن کی کارروائی کے اختتام پر جاری کئے گئے اعلامیے میں بتائی گئی، جس کے مطابق ، 2026 میں اتحاد کی چئیرمین شپ فلپائن کے سپرد کی جائے گی، جس کے صدر فرڈیننڈ مارکوس نے اپنے بیان میں آسیان کی قیادت سنبھالنے پر اتفاق کیا ہے۔

آسیان کے ایک عہدےدار نے بتایا کہ ایسا آسیان کے اس عزم کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ میانمار میں امن اور استحکام کے پانچ نکاتی منصوبے پر عمل کیا جائے۔ آسیان ملکوں کے دو سفارتکاروں کے مطابق ، آسیان اتحاد کی جانب سے یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا، کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ آسیان ملکوں کے تعلقات کو کوئی نقصان نہ پہنچے، جو میانمار میں انسانی حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جنوب مشرقی ملکوں کے اتحاد آسیان کی آئیندہ قیادت فلپائن کے سپرد ہوگی۔ فوٹو اے پی

میانمار کی حکمراں فوجی قیادت نے 2021 میں پر تشدد انداز میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اس وقت سے وہ بین الاقوامی طور پر اپنی حکومت تسلیم کروانے کے لئے کوشاں ہیں۔امریکہ کی قیادت میں مغربی ملکوں کی حکومتیں میانمار کی فوجی قیادت کی جانب سے حزب اختلاف کی رہنما آنگ سانگ سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے 2021 میں خاتمے کی مذمت کرتے ہیں اور سوچی اور ان کی حکومت کے دیگر عہدیداروں کی قید ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

"آسیان اتحاد کسی بڑی طاقت کی پراکسی نہیں بنے گا'

انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو آسیان اجلاس کے پلینری سیشن کا افتتاح کر رہے ہیں۔ فوٹو ای ایف پی پول

اس سے قبل، منگل کوجکارتہ میں میزبان ملک انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودونے آسیان ملکوں کے اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماوں سے کہا تھا کہ آسیان ملکوں کے اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی طاقت کی 'پراکسی' یا نائب نہیں بنے گا۔

انڈونیشیا کے سربراہ جکارتہ میں منگل کو جنوب مشرقی ایشیا کے دس ملکی اتحاد آسیان کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔اس اجلاس میں امریکہ کی نمائندگی نائب صدر کاملا ہیرس کر رہی ہیں۔مبصرین اجلاس میں چین کے وزیر اعظم لی شیانگ کی شرکت کی توقع کر رہے ہیں اور یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ ان کی ملاقات امریکی نائب صدر اور روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاووروف سے ہوگی۔

ا انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ہونے والا یہ آسیان اجلاس اس سال کا آخری آسیان اجلاس ہے۔دس ملکوں کے سربراہوں اور نمائندہ شخصیات کا یہ اہم اجلاس جکارتہ میں انتہائی سیکیورٹی انتطامات کے درمیان ہو رہا ہے۔ کانفرنس کے دوسرے اور تیسرے دن آسیان ملکوں کے سربراہ ایشیائی اور مغربی ملکوں کے عہدیداروں سے ملیں گے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے صدر کا کہنا تھا کہ آسیان ملکوں کو اپنے خطے میں قیام امن کے عمل کی کمان خود سنبھالنی ہوگی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں ایسے کئی متنازعہ معاملات زیر بحث آنے کی توقع ہے، جن کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا۔ میانمار کی بدلتی ہوئی صورتحال، جنوبی چین کی متنازعہ سمندری حدود میں پیدا ہونے والی گرما گرمی، اور امریکہ اور چین کے درمیان عالمی سطح پر مسابقت کے بارے میں آسیان ممالک کے نکتہ نظر میں اختلافات کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے۔ فلپائن اور ویت نام واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں جبکہ کمبوڈیا مضبوطی کے ساتھ بیجنگ کے ساتھ ہے۔

'آسیان' اجلاس میں صدر بائیڈن کی عدم شرکت کا مطلب کیا؟

کاملا ہیرس کا جکارتہ پہنچنے پر انڈونیشیا کے وزیر صحت نے استقبال کیا ، فوٹو اے پی

صدر بائیڈن کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر مبصرین سوالات اٹھا رہے ہیں اور آسیان ملکوں میں کچھ مایوسی پیدا ہوئی ہے لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ نائب صدر کاملا ہیرس کی کانفرنس میں شرکت خطے کے بارے میں امریکہ کے عزائم اور وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسری طرف بائیڈن بھارت میں ہونے والی جی ٹوئنٹی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں ، جہاں سے وہ ویت نام جائیں گے ۔

SEE ALSO: کاملا ہیرس کا گھانا کا دورہ، افریقہ کے لیے 139 ملین ڈالر امداد کا وعدہ

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ بائیڈن آسیان بلاک کو نظر انداز کر کے امریکہ کی جیو پولیٹیکل ترجیحات کو تبدیل نہیں کر رہے، بلکہ اس سے ایشیائی خطے کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کشادہ اور گہری ہونے کا اشارہ مل رہا ہے۔

قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے توجہ دلائی ہے کہ بائیڈن نے گزشتہ برس ہی آسیان کے لیڈروں کے ساتھ واشنگٹن کی پہلی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی ہے۔

کاملا ہیرس دو دن جکارتہ میں گزاریں گی۔ جہاں وہ سربراہ کانفرنس کی تقریبات میں شرکت کررہی ہیں اور غیر ملکی رہنماؤں سے انفرادی طور ہر بات چیت کررہی ہیں۔کاملا ہیرس کا جنوب مشرقی ایشیا کایہ تیسرا اور مجموعی طور پر ایشیا کا چوتھا دورہ ہے۔نائب صدر ہیرس کسی بھی دوسرے بر اعظم کے مقابلے میں، یہاں کے زیادہ ملکوں میں جا چکی ہیں۔

کاملا ہیرس کا یہ دورہ انہیں ایسے میں خارجہ پالیسی کے تجربے میں اضافے کا ایک موقعہ فراہم کررہا ہے جب امریکہ میں آئندہ سال صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔ وہ پہلے ہی ریپبلکن صدارتی امیدواروں کے حملوں کی زد میں ہیں ، جن کا کہنا ہے کہ اگر امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر بائیڈن اپنی دوسری مدت پوری نہ کر سکے تو کاملا ان کی جگہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ بحیرۂ جنوبی چین میں بھارت کے ساتھ مزید تعاون کا خواہاں

جکارتہ میں یہ رہنما ایسے میں جمع ہو ئے ہیں جب بیجنگ کی جانب سے ایک نیا سرکاری نقشہ جاری کی گیاا ہے، جس میں اسکے سرحدی دعووں پر زور دیا گیا ہے۔

اس نقشے نے ان ملکوں کو ناراض کردیا ہے جو جنوبی بحیرہ چین کو اپنے علاقے کا حصہ یا بین الاقوامی گزرگاہ سمجھتے ہیں۔

امریکی عہدیدار اور تجزیہ کار باور کرتے ہیں کہ خطے کی جانب بیجنگ کے جارحانہ انداز نے واشنگٹن کے لئے ایک مضبوط ترین پارٹنر شپ بنانے کی راہ بنادی ہے۔

(اس خبر کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)