یہ منظر ہے پشاور میں واقع نابینا لڑکیوں کے ایک سکول کا جہاں ایک لا متناہی اندھیرے میں ’بریل بورڈ‘ پر انگلیاں پھیرتی نابینا اور کمزور حس نگاہ کی حامل لڑکیاں اپنی بے نور آنکھوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنے کی جستجو کر رہی ہیں۔
پاکستان میں نابینا خواتین کے لیے طبی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ تعلیمی سہولیات کا نا ہونا بھی ایک ایسا مسئلہ جس کے حل کے لیے کوششیں اتنی نہیں جتنی ہونی چاھئیں، جیسے کہ پرائمری تعلیم کے بعد نابینا لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مزید پڑھائی اور ہنر سیکھنے کی سہولیات پاکستان کے صوبہٴ خیبر پختونخواہ میں ان کوششوں کی راہ میں ذرائع کے علاوہ سکیورٹی اور سماجی مسائل بھی رکاوٹ ہیں۔
سیما ایک ایسی ہی نابینا طالبہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی عہدے داروں سے بات چیت کی۔ لیکن، وہ یہاں آتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔۔جیسے وہ ہمیں نظرانداز کر رہے ہوں۔
پشاور میں واقع ’انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ گرلز‘ نامی پرائمری سکول میں صرف 25 طالبات کی گنجائش ہے، پھر بھی یہاں بچیاں 10 سال کی عمر میں آتی ہیں اور نابینا ہونے کے باوجود کچھ ہنر بھی سیکھتی ہیں۔
لائبہ بھی ایک ایسی ہی طالبہ ہیں۔ لیکن، وہ پرائمری پاس کر چکی ہیں اور اب ان کے لیے مزید پڑھائی کے لیے مشکلات ہیں۔ 16 سالہ لائبہ کو اب یا تو ہر روز 100 کلومیٹر کا سفر طے کرکے دوسرے صوبے میں واقع ہائی سکول جانا پڑے گا یا گھر بیٹھنا پڑے گا اور حالات کو دیکھتے ہوئے ایسے ہی لگتا ہے کہ ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے۔
لائبہ کا کہنا ہےکہ میرے والد کہتے ہیں کہ یہ سکول پانچویں جماعت تک ہے۔ اگر یہ دسویں تک ہوتا تو تم پڑھ لیتی مگر اب تمھیں اپنی پڑھائی کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ لائبہ کے والد، لال بہادر کی تین بیٹیاں ہیں اور تینوں کی نظر نابینگی کی حد تک خراب ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں پڑھیں۔ لیکن، ان کے علاقے میں نابیناؤں کے لیے صرف ایک ہی سکول ہے، جو لڑکوں کے لیے ہے۔ وہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔ اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو دوسرے صوبے میں تعلیم کے لیے بھیج سکیں۔ لال بہادر کہتے ہیں کہ ’’میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔ اور میں کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہتا۔ میرا مقصد اپنی بچیوں کو خود مختار بنانا ہے‘‘۔
یونیسیف کے مطابق، پاکستان میں خواندگی کی شرح ترقی پذیر ممالک میں کم ترین سطح پر ہے اور صرف 34 فیصد بچے پرائمری کے بعد سیکنڈری سکول میں داخلہ لیتے ہیں، جبکہ خواتین میں یہ تعداد 30 فیصد سے بھی کم ہے۔ وہاں خواتین اور نابینا خواتین کی تعلیم میں حائل مشکلات بہت زیادہ ہیں۔
پورے صوبہٴ پختونخواہ میں کوئی بھی ’بریل پرنٹنگ پریس‘ نہیں اور اساتذہ کو نصابی کتابیں خود سے تیار کرنی پرتی ہیں۔
عابدہ نسرین نابینا بچیوں کو پڑھاتی ہیں
’’ہم عام نصابی کتابیں لاتے ہیں۔ پھر ایک استاد انھیں اونچی آواز میں پڑھ کے سناتا ہے اور ہم اسےخود سے بریل کی شکل میں تحریر کرتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نہایت لمبا اور مشکل مرحلہ ہےجس میں نصاب کو بریل کی شکل دینے کےلیے اساتذہ کو کاغذ پر ہزاروں نقطے مہر کرنے پڑتے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبےمیں سماجی کاموں کے لیے ایک وزیر مقرر کیا گیا ہے اور نابینا خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کی آواز کو ایوان بالا تک پہنچایا جائے گا۔ صوبہٴ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی، عائشہ گلالئی وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں مزید اقدامات کر رہی ہے۔
عائشہ گلالئی وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت نابینا اور معذور افراد خاص طور پر خواتین کی بہبود کے لیے کام کر رہی ہے۔ نئی بننے والی عمارتوں میں معذور افراد کے لیے ریمپس بنائے جا رہے ہیں۔ ہائی سکول کی بات کا صوبائی حکومت کو علم نہیں تھا۔ لیکن، ہم اس بات کو آگے پہنچائیں گے۔
پشاور میں واقع ’انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ گرلز‘ کے پرنسپل، یونس آفریدی کا کہنا ہے کہ حکومت اس سکول کو وسعت دینے اور اسے پرائمری سے سیکنڈری سکول بنانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اور اس کے لیے کاغذی کاروائی ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جگہ بھی ہے اور انھیں یقین ہے کہ عمارت کی تعمیر کا کام دو سے تین مہینوں میں شروع ہو جائے گا۔ جبکہ سکول کی نابینا طالبہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ وعدے پہلے بھی سنے ہیں۔ لیکن، وہ اس پر یقین اس وقت ہی کریں گی جب وہ اپنے کانوں سے سکول کے تعمیر ہونے کی آواز سنیں گی۔
تفصیل کے لیے، ویڈیو رپورٹ سنیئے: