مصر کے جنگی طیاروں نے پیر کی صبح ہمسایہ ملک لیبیا میں داعش کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی ہیں۔
یہ فضائی کارروائیاں عسکریت پسندوں کی طرف سے لیبیا میں اغوا کیے گئے 21 مصری ’قطبی عیسائیوں‘ کے سر قلم کرنے کے ردعمل میں کی گئی ہیں۔
ان فضائی کارروائیوں کا نشانہ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ اور ان کے اسلحہ کو ذخیروں کرنے کے مقامات تھے۔
شدت پسند گروہ داعش کی طرف سے لیبیا سے اغواء کیے گئے 21 مصری قبطی عیسائیوں کے بظاہر سر قلم کرنے کی وڈیو منظر عام پر آئی تھی۔
جس کے بعد مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا ان کا ملک قاتلوں کے اس "دہشت گردی کے قابل نفرت عمل" کا مناسب انداز میں صحیح وقت پر جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
قوم سے خطاب سے قبل صدر نے قومی دفاعی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی اور اس واقعے کا ممکنہ جواب دینے پر تبادلہ خیال کیا۔
ان ہلاکتوں کی پہلے پہل خبر سوشل میڈیا پر 12 فروری کو آئی تھی لیکن مصری حکومت نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا تھا۔
وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مصر کے مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی شدید مذمتی بیانات سامنے آئے۔ قبطی چرچ نے ایک بیان میں اپنے پیروکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ "اپنی عظیم قوم پر یقین رکھیں کہ وہ مجرموں سے اس کا بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی۔"
اسلامی دنیا کی معتبر جامعہ الازہر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی مذہب ایسے "وحشیانہ" اقدامات کو قبول نہیں کرے گا۔
اتوار کو دیر گئے جاری کی گئی اس وڈیو میں متعدد آدمیوں کو نارنجی کپڑوں میں ملبوس گھٹنوں کے بل بیٹھے دکھایا گیا اور ہر شخص کے ساتھ ایک نقاب پوش شدت پسند کھڑا ہے۔
ان مغویوں کا سرقلم کیے جانے سے قبل ایک شدت پسند کیمرے میں دیکھتے ہوئے انگریزی زبان میں تقریر کرتا ہے۔
شدت پسند نے مغویوں کا سر قلم کرنے کو مصر کے "قبطی چرچ" کے خلاف ردعمل قرار دیا۔
داعش کے شدت پسندوں نے گزشتہ سال عراق اور شام کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں خلافت کا اعلان کیا تھا اور اس کے شدت پسندوں کی طرف سے علاقے میں مذہبی اور مسلکی اقلیتوں کے خلاف قتل و غارت گری دیکھنے میں آ چکی ہے۔
یہ گروپ امریکی، یورپی اور جاپانی مغویوں کے علاوہ اردن کے ایک پائلٹ کو بھی قتل کر چکا ہے۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحادی ممالک نے اس گروپ کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔