ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں گزشتہ چار برسوں کے دوران بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں چار گنا تک اضافہ ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں صوبے میں بچوں کے خلاف تشدد کے مجموعی طور پر 42 واقعات کے مقدمات درج ہوئے تھے جن میں 21 بچیوں پر جنسی تشدد کے واقعات بھی شامل تھے۔
پولیس کے مطابق سال 2016ء میں ایسے 151 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2017ء میں یہ واقعات کم ہو کر 123 رہ گئے تھے۔
تاہم گزشتہ سال یعنی 2018ء میں ان واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا اور صوبے بھر میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے 213 مقدمات درج کرائے گئے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ سال صوبے میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں 181 بچے اور 32 بچیاں شامل تھیں۔
خیبر پختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے پیشِ نظر پولیس کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کی پوری کوشش ہے کہ اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے۔
پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ پچھلے چار برسوں کے دوران صوبے میں بچوں کے خلاف تشدد میں ملوث 900 ملزمان کو بھی حراست میں لیا گیا جن میں سے بعض کو مختلف عدالتوں نے سزائیں بھی دیں۔
پولیس افسر کے بقول ان واقعات کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ ان کی رپورٹنگ کے رجحان میں اضافہ بھی ہے کیوں کہ ماضی میں والدین یا دیگر رشتے دار بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات چھپاتے تھے۔ مگر اب ان کے بقول اِن واقعات کے مقدمے درج کرائے جا رہے ہیں۔
لیکن بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی ادارے کے سابق اہلکار اور سماجی کارکن عمران ٹکر سمجھتے ہیں کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور نا اہلی ہے۔
ان کے بقول ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے ایسے واقعات کے میڈیا پر آنے کی وجہ سے متاثرہ والدین اب زیادہ تعداد میں ان واقعات کو پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں جن کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عمران ٹکر نے کہا کہ زیادہ تر وہ واقعات پولیس کے سامنے بیان یا رپورٹ کیے جاتے ہیں جن میں بچوں کو یا تو قتل کیا جاتا ہے یا ان کو طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے بقول ایسے بیشتر واقعات اب بھی پولیس کے علم میں نہیں لائے جاتے جن میں متاثرہ بچوں یا بچیوں کو طبی امداد کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اُنھوں نے کہا کہ مسئلہ تب حل ہو گا جب تمام تر واقعات پولیس کو رپورٹ کیے جائیں گے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے عدالتوں سے سزا دلوائیں گے۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کے حل کے لیے تعینات کی جانے والی صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان بچوں کے حقوق سے متعلق جنیوا کنونشن کا حصہ ہے لہذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی تحفظ کو یقینی بنائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ قوانین کو عملی بنائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار بھی بڑھائیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان، نوشہرہ اور کئی دیگر اضلاع میں گزشتہ سال پولیس نے بچیوں کے خلاف جنسی تشدد میں ملوث کئی ملزمان کو گرفتار کیا۔
مردان میں چھ سال قبل ایک کم سن بچی کو جنسی تشدد کے بعد ہلاک کرنے کے جرم میں ملوث ایک اہم ملزم کو صوبے کی ایک عدالت نے چند روز قبل ہی 50 سال قید کی سزا بھی سنائی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال پنجاب کے ضلع قصور میں اغوا اور جنسی تشدد کے بعد قتل کی جانے والے آٹھ سالہ بچی زینب کا واقعہ ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد بچوں کو لاحق خطرات سے متعلق معاشرے میں آگہی بڑھی ہے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اور پولیس پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔