کرونا وائرس لاک ڈاؤن: 'ٹیکسٹائل اور فیشن مصنوعات کی پیداوار رک گئی ہے'

الکرم ٹیکسٹائل گروپ کے سربراہ عابد عمر نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کافی متاثر ہو رہی ہیں جس کے اثرات پاکستان کی معیشت پر مرتب ہوں گے۔

جمعے کے روز وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عابد عمر نے بتایا کہ کرونا کی وبا اور لاک ڈائون کے نتیجے میں فیشن سے وابستہ کاروبار کافی متاثر ہوا ہے جس کا پاکستانی برآمدات میں بڑا حصہ ہے۔

ان کے بقول برآمدات میں پچھلے سال کے مقابلے میں پچاس فی صد کمی ریکارڈ ہوئی ہے جو کافی پریشان کن ہے۔

انھوں نے کہا کہ 21 مارچ سے ملک کی زیادہ تر صنعتیں پورے طور پر کام نہیں کر پا رہیں یا مکمل طور پر بند پڑی ہیں۔

الکرم ٹیکسٹائل گروپ میں تقریباً 15000 افراد کام کرتے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے گروپ کے تمام یونٹس بند پڑے ہیں۔ الکرم ٹیکسٹائل کے پاکستان بھر میں 100 ریٹیل اسٹور بھی ہیں جو تمام کے تمام بند ہیں۔

عابد عمر نے بتایا کہ آن لائن کاروبار کافی اچھا چل رہا تھا، لیکن کرونا وائرس کے بعد لوگوں کا آن لائن شاپنگ کا رجحان بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک پوری دنیا میں حالات نارمل نہیں ہوتے پاکستان کی ایکسپورٹ میں خاطرخواہ اضافہ ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انھوں نے کہا کہ جب یورپ میں صورتِ حال معمول پر آئے گی تب جا کر پاکستانی مصنوعات کی کھپت بحال ہوگی۔

معروف صنعت کار نے تجویز دی کہ حکومت کو سخت 'ایس او پیز' کے ساتھ کاروبار شروع کرنا چاہیے کیوں کہ ان کے بقول کئی دوسرے ممالک میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی ہے۔

عابد عمر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے اور اسے جاری رکھا گیا تو معیشت کے لیے اس کے منفی اثرات نکلیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مقامی کھپت بھی کافی ہے جس کی وجہ ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔

ان کے بقول پاکستان کی لوکل مارکیٹ کافی بڑی ہے، جس پر خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر بیرونی مارکیٹس نہیں کھولی جاتیں، تو ہمیں اپنی لوکل مارکیٹ کی طرف دیکھنا ہوگا جو کہ بہت بڑی مارکیٹ ہے۔

پاکستانی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا شعبہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا اور ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں بلکہ صنعتی پیداوار بھی تقریباً رک گئی ہے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے متعدد تارکینِ وطن ذرائع آمدن ختم ہونے کے بعد وطن واپس آ رہے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق مشرقِ وسطیٰ سے ہے۔

دوسری جانب اس صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات زر بھی بری طرح سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ماہرین کے مطابق وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 50 لاکھ تھی۔ لیکن وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں رکنے کے بعد اب بے روزگار افراد کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنا اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔