کیا ڈاک کے علاوہ ووٹنگ میں حصہ لینے کا کوئی اور طریقہ کار باقی ہے؟

اس سال تین نومبر کو امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کرونا بحران نہ صرف سیاسی بیانیے کا اہم موضوع ہوگا، بلکہ اس سے پیدا ہونے والے صحت عامہ کے مسائل ووٹ ڈالنے کے روایتی طریقہ کار پر بھی شدت سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اس وقت ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار پر حزب اقتدار ریپبلیکنز اور حزب مخالف ڈیموکریٹکس میں یہ تند و تیز بحث جاری ہے آیا لوگوں کو ملک بھر کے تمام مقامات پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔

امریکہ کے امراض سے بچاو کے ادارے، سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) نے حال ہی میں ہدایات جاری کیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ووٹنگ کے عمل میں کرونا وائرس کے چیلنجوں سے بچنے کے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔

سماجی فاصلہ قائم رکھنے اور چہرے پر ماسک پہننے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ سی ڈی سی نے ہدایت کی ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر ذاتی طور پر حاضر ہو کر ووٹ ڈالنے کے بجائے جہاں تک ممکن ہو اس کے نعم البدل طریقے اختیار کیے جائیں۔

سی ڈی سی نے کہا ہے کہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے اس بات کو سامنے رکھا جائے کہ لوگ جتنا آپس میں ملیں گے کووڈ نائنٹین کے پھیلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا؛ اور انتخاب کے لیے ووٹنگ ایک ہی دن مکملے کرنے سے لوگوں کا لمبی قطاروں اور بڑے ہجوم کا اکٹھا ہونا اس موذی مرض کے پھیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔

تاہم، سی ڈی سی نے ذاتی طور پر پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کے کسی ایک خاص نعم البدل طریقہ کی ہدایت نہیں دی۔

سیاسی سطح پر ڈاک یا میل کے ذریعے ووٹروں کی انتخابات میں شرکت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات میں ووٹروں کی شناخت سے متعلق معلومات کا عام ہونا اور ووٹوں کے جعلی ہونے کا امکانات شامل ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ووٹ کا طریقہ کار طے کرنا ریاستوں کے اختیار میں ہے۔

اس سلسلے میں ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مسئلے پر دونوں جماعتیں سیاسی بنیادوں پر یکسر مخالف رائے رکھتی ہیں۔

ستہتر فی صد رجسٹرڈ ووٹروں کی آرا پر مبنی دی ہل اور ہارث ایکس کے ایک مشترکہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 32 فی صد ووٹر ڈاک کے ذریعے ووٹ کو غیر محفوظ سمھجھتے ہیں، جبکہ 58 فی صد ووٹر کو ذاتی نوعیت کی معلومات کے منظرعام پر آنے کا اندیشہ لاحق ہے۔ مزید یہ کہ 48 فی صد ووٹر یہ کہتے ہیں کہ اس طریقہ سے جعلی ووٹ ڈالنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

لیکن، جب ووٹرز سے پوچھا گیا کہ وہ دونوں طریقوں سے ووٹ ڈالنے کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا سمجھتے ہیں تو 55 فی صد نے کہا کہ ان کے لیے ووٹ میں حصہ لینے کا مطلب کرونا وائرس کے شکار ہونے کا زیادہ باعث ہوگا۔

الیکشن سے متعلق ماہرین کہتے ہیں کہ کووڈ نائنٹین کے پر خطر ماحول میں ڈاک کے ذریعے ووٹ کا حق استعمال کرنا ایک بہتر طریقہ ہے، کیونکہ اس کو استعمال کرتے ہوئے ووٹرز اپنے آپ کو محفوظ بھی کر لیتے ہیں اور کرونا کی وبا کے پھیلنے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں حال ہی میں منعقد ہونے والے کولوراڈو کے پرائمری انتخاب کو ایک مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ کولوراڈو ریاست کی سیکرٹری جینا گرس والڈ کے مطابق کرونا بحران کے دوران ریاست کے پرائمری انتخاب میں لوگوں نے لمبی قطاروں میں انتظار کرکے ووٹ ڈالنے کے بجائے 99.3 فی صد ووٹروں نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالا۔ اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹروں نے اس طریقہ کار کو اپنایا۔

انتخابی عمل کا 13 سالہ تجربہ رکھنے والی ماہر، ایمبر میک رینلڈز نے بتایا کہ کولوراڈو ریاست نے اس انتخاب سے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا ایک پلاٹینم ماڈل پیش کیا ہے۔ کچھ سیاسی کارکن کہتے ہیں کہ روایتی ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے امکان سے امریکہ میں اقلیتی برادریوں کو ووٹ کے عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن اور نیو جرسی میں مانٹ گومری کی پاکسانی نژاد میر صدف جعفر نے کہا ہے کہ ''میں سمجھتی ہوں موجودہ حالات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کا یہ ایک آسان طریقہ ہے جس سے صحت عامہ کا خیال بھی رکھا

جا سکتا ہے اور ووٹر اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ کرتے ہوئے مخصوص ڈراپ آف باکس میں بند لفافے کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں''۔

نیو جرسی میں مقیم پاکستانی امریکی سیاستدان، آغا افضل خان، جن کا تعلق ری پبلیکن پارٹی سے ہے، کہتے ہیں ''میں سمجھتا ہوں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا رجحان تو پہلے ہی سے چلتا آرہا ہے۔ لیکن، جہان تک پاکستانی امریکی ووٹروں کا انتخابات میں شرکت کا سوال ہے تو یہ دوسری برادریوں کے مقابلے میں بہت کم ہے اور انہیں ووٹ ڈالنے کے علاوہ سیاسی اور جمہوری عمل کے تمام پہلووں میں بھرپور حصہ لینا چاہیے''۔