اس سال مئی کے آغاز میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعدسے پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں جس سے دونوں ملکوں کے سیکیورٹی اداروں کے درمیان تعاون بھی خاصا متاثر ہوا ہے ۔اب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان القاعدہ کے نئے راہنما ایمن الظواہری کو تلاش کرنے میں ان کی مدد کرے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اگر امریکہ کے پاس القاعدہ کے راہنما کی موجودگی کے بارے میں کوئی معلومات ہے تووہ پاکستان کو فراہم کرے ۔
نیو امریکہ فاؤندیشن سے منسلک دہشت گردی سے متعلق امور کے تجزیہ کار برائین فش مین کہتے ہیں کہ اعتماد کے فقدان کے پیش نظر امریکہ ایسا نہیں کرے گا۔
مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں کے جانب سے تعلقات بحال کرنے کے لئے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ رنگ لاتی نظر نہیں آتیں اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کا دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منفی اثر پڑے گا۔
http://www.youtube.com/embed/qFhxS3-HReM
ان کا کہناتھا کہ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد بند کرنے سے ملک کمزور ہوگا او ر فوج پر بھی اثر پڑے گا جو دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ اس سے فوج کے وسائل اور دہشت گردوں سے لڑنے کی قابلیت متاثر ہوگی۔
مگر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے تعاون پر مبنی شراکت داری کا خواہشمند رہا ہے۔
حا ل ہی میں امریکی فوج کے رخصت ہونے والے کمانڈرجنرل ڈیوڈ پٹریس نے کہا ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں افغانستان میں امریکی فوج کی توجہ پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں پر ہوگی۔ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد روکنے کی خبروں کے بعد پاکستان نے کہا ہےکہ وہ فغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں تعینات فوج ہٹا سکتا ہے۔امریکی ماہرین کہتےہیں کہ اگر پاکستان ایسا کرتا ہے تو سرحد کنٹرول کرنے کے لئے امریکی فوج پر دباؤ بڑھے گا۔