کیا امریکی کارکنوں کو حکومت سے مزید مالی امداد درکار ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر کانگریس کے ارکان بحث و تمحیص کر رہے ہیں جب کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ایک اور ریلیف پیکج سینیٹ میں جا رہا ہے۔
دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح کرونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں امریکہ کی معیشت بھی تباہ حالی سے دوچار ہو گئی ہے اور بہت سے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز اس بارے میں اختلاف رائے رکھتےہیں کہ امریکی معیشت کو کس طرح سنبھالا دیا جائے۔
امریکہ میں بھی کرونا وائرس کے نتیجے میں مختلف سطح پر عائد بندشوں میں دھیرے دھیرے نرمی کی جا رہی ہے، لیکن اقتصادی نقصانات سے نمٹنے کا معاملہ جانب داری کا شکار ہے۔
دوسری جانب جوں جوں امریکی صدارتی انتخاب نزدیک آتا جا رہا ہے، یہ مسئلہ سیاسی رنگ اختیار کر رہا ہے۔ ریپبلکنز کا کہنا ہے کہ تازہ ترین امدادی بل ڈیموکریٹس کی ترجیحات سے بھرا ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار ایلیزا بیتھلی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس بل میں طلبا کے قرضوں میں چھوٹ، اور اگلے محاذ پر کام کرنے والے صحت کے کارکنوںِ، کرایہ داروں، مکان کے مالکوں اور کاشت کاروں کے لئے مالی اعانت جیسے معاملات شامل کئے گئے ہیں۔ اس قانون کے تحت دستاویز نہ رکھنے والے تارکین وطن کو، جو ٹیکس دیتے ہیں، مالی ادائیگیوں کی تجویز بھی رکھی گئی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن میں نامزدگی کے سابق امیدوار سینٹر برنی سینڈرز کا کہنا ہے کہ ایک اور امدادی پیکج بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے چاہے وہ کرونا وائرس کی علامات ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔
برنی سینڈرز نے اپیل کی اگر آپ کو مزدور طبقے کے بارے میں تشویش ہے اور ان کے غیر معمولی دکھ درد کا احساس ہے تو پھر کانگریس سے اس بل کی منظوری کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ یورپ کی طرز پر امریکہ میں بھی کارکنوں کو تنخواہوں کے چیک کی ادائیگی اور کرونا سے پہلے کی مراعات اور اس بحران کے خاتمے کے بعد نوکری کی بحالی کی ضمانت ہونی چاہئے۔
تاہم وائٹ ہاؤس میں تجارتی مشیر پیٹر نوارو، تازہ ترین بل کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کی دلیل ہے کہ اقتصادی نمو کے لئے صدر ٹرمپ کا ایک مختلف زاویہ نگاہ ہے جس پر عمل درآمد نہ صرف اچھی اقتصادی پالیسی ہے بلکہ، بقول ان کے، قومی سلامتی کے لئے بھی سود مند ہے۔
اب جبکہ یہ تازہ ترین بل سینٹ میں غور کے لئے جا رہا ہے، ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے پیش کش کی ہے کہ ان کی پارٹی کے ارکان یعنی ڈیموکریٹس ریپبلکنز کے ساتھ اس مسئلے پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
بہرحال ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ منظر نامے میں جبکہ سیاسی تفریق اپنی جگہ موجود ہے اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، عام لوگ روز بروز تشویش اور بےیقینی کی کیفیت سے دوچار ہوتے نظرآتے ہیں۔