امریکی خلائی ادارے 'ناسا' نے تصدیق کی ہے کہ چاند کے وہ حصے جو سورج کی جانب ہیں وہاں پانی کی دریافت ہوئی ہے جس سے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ چاند پر پانی کی موجودگی پہلے خیال کی گئی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ یہ دریافت ایئر کرافٹ 747 پر قائم صوفیہ نامی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی یہ طیارہ کافی بلندی پر پرواز کرتا ہے اور اسے خلائی تحقیق کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ پانی کے مالیکیول صرف چاند کے اندھیرے اور ٹھنڈے علاقوں پر ہی مل سکتے ہیں۔
ناسا کا کہنا ہے کہ صوفیہ نے چاند پر بڑے گہرے گڑھے کی تہہ میں پانی دریافت کیا ہے۔ پانی کی مقدار 12 اونس فی کیوبک میٹر مٹی ہے جو چاند کی سطح پر بکھری ہوئی ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی کے باوجود یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ چاند کی بغیر ہوا کی فضا میں پانی کیوں ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس نئی دریافت سے ایجنسی کے مستقبل کے ان منصوبوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جن میں ناسا چاند پر اس عشرے کے اختتام تک انسانوں کی مستقل آبادی بنانا چاہتا ہے۔ اس بات پر کام ہونا باقی ہے کہ جو پانی صوفیہ کو چاند پر ملا ہے اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جب انسان 1969 میں چاند پر پہلی بار اترا تھا تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ چاند میں پانی نہیں ہے مگر اس کے بعد مشاہدوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں برف اور پانی کے آثار موجود ہیں۔ مگر اب سے پہلے اس کے یقینی شواہد نہیں ملے تھے۔
صوفیہ کی مستقبل میں پروازیں چاند کی سورج کی جانب سطح پر ہوں گی تاکہ اس سطح پر موجود پانی کے حوالے سے مزید تحقیق کی جا سکے۔ یہ معلومات مستقبل میں انسان کی خلا میں جانے کے لیے چاند پر پانی کی ایک مستقل ریسورس بنانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔