بھارت کے ہاتھوں ورلڈ کپ میں بڑی شکست کے بعد پاکستان کی ٹیم پر بالعموم اور کپتان پر بالخصوص سخت تنقید ہو رہی ہے۔ لیکن کئی ایک سینئر کھلاڑی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سرفراز احمد کی حوصلہ شکنی نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور انہیں قیادت سے ہٹانے جیسا اقدام نہیں لینا چاہیے۔
اعجاز فقیہہ پاکستان کے لیے 5 ٹیسٹ میچ اور 27 ایک روزہ میچ کھیل چکے ہیں۔ یارک شائر ویٹرنز کے خلاف بریڈ فورڈ برطانیہ میں سینئر پاکستانی ویٹرنز کے میچ کے دوران وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کے خلاف ورلڈ کپ میں پاکستان کی بڑی شکست کی وجہ ٹیم ورک کا فقدان قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ "کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ بھارت کے کھلاڑی مکمل اتفاق کے ساتھ اور پوری ٹیم اسپرٹ کے ساتھ کھیل رہے تھے اور پاکستانی کھلاڑی لگتا تھا جیسے ایک دوسرے سے بہت جدا ہوں"۔
فواد اعجاز سینئرز کی پاکستانی ٹیم کے کپتان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیم اور کپتان پر ضرورت سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ جیسی فیورٹ ٹیم کو شکست دی۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی بہت اچھا میچ کھیلا۔ وہ کہتے ہیں کہ کپتان سرفراز کو تبدیل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کپتانی کے لیے۔ ان کے بقول، سرفراز سے بہتر انتخاب موجود ہی نہیں ہے۔
اعجاز کہتے ہیں کہ اگر سرفراز نہیں تو پھر کون ہے جو یہ ذمہ داری لے سکتا ہے۔ کیا ایسے لڑکوں کو کپتان بنائیں گے جن کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ عماد وسیم کا نام لیا جا رہا ہے۔ پہلے وہ اپنی ٹیم میں مستقل جگہ تو بنائیں۔
ندیم عمر پاکستان سوپر لیگ کی فاتح کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے مالک ہیں۔ وہ بھی کہتے کہ سرفراز احمد کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تاثر درست ہے کہ سرفراز احمد جب کوئٹہ گلیڈیٹرز کی کپتانی کرتے ہیں تو پر اعتماد ہوتے ہیں۔ فیصلے خود کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ پاکستان کی قومی ٹیم کی قیادت والا سرفراز مختلف شخصیت نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست ہے۔ ان کے الفاظ تھے کہ یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ میرے خیال میں، سرفراز احمد کو مکمل طور پر ’بک اپ‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
ندیم عمر کہتے ہیں کہ سرفراز احمد کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور سوشل میڈیا پر اگر ان کے خلاف مہم چل رہی ہے کہ وہ کپتانی سے الگ کر دیئے جائیں تو انہیں قیادت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
جلال الدین پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔ اور آج کل کرکٹ ڈیولپمنٹ پر کام کر رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی ذہنی پختگی کے لئے باقاعدہ سائنسی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے الفاظ میں، ذہنی پختگی ایک دن میں نہیں آتی۔ یہ بھی ایک مکمل پراسس ہے۔ اس کے لیے ایک سسٹم کے تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ سابق کھلاڑی کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے بعد چند کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا۔ نئے لڑکے ٹیم میں آ سکتے ہیں، جس سے ٹیم کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔ تاہم، جلال الدین کہتے ہیں کہ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کے لیے طویل مدتی، وسط مدتی اور قلیل مدتی اقدامات ضروری ہیں۔ اور قلیل مدتی اقدامات میں وہ تجویز کرتے ہیں کہ کوچ اور ٹیم کا واسطہ بہتر طور پر استوار کیا جائے۔ ان کے درمیان بہتر انڈرسٹینڈنگ کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان کی ٹیم کے اس ورلڈ کپ میں دوسرے مرحلے تک جانے کے امکانات بے حد محدود ہیں۔ لیکن، کچھ سینئر کھلاڑی اب بھی مایوس نہیں ہیں۔