ناسا کی جدید ترین خلائی دوربین جمیز ویب سپیس سائنس دانوں کو اس لمحے کے مزید قریب لے جا رہی ہے جب بگ بینگ سے اس کائنات کا آغاز ہوا تھا۔ دوبین کی بھیجی ہوئی تازہ ترین تصویریں اس دور کی ہیں جب بگ بینگ کا دھماکہ ہوئے 35 کروڑ سال گزر چکے تھے۔
کائنات کی عمر میں ماہ و سال ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارا علم زیادہ تر سائنسی اعداد و شمار اور نظریات پر مشتمل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کائنات تقریباً 14 ارب سال پہلے بننا شروع ہوئی تھی۔
یہ عمل اب بھی جاری ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کا پھیلاؤ، نئے سیاروں، ستاروں اور ان کے شمسی نظاموں بننے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
کائنات کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ایک سائنسی نظریہ ہے کہ جب کائنات وجود میں نہیں آئی تھی تو اس خلا میں جہاں موجودہ کائنات ہے، ایک بہت بڑا گولہ موجود تھا۔ اس گولے کے سائز کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ اس کے پھٹنے سے لاکھوں کہکشائیں اور ان کے لاکھوں ہزاروں شمسی نظام بنے۔
سائنس دان گولہ پھٹنے کے اس واقعہ کو ’بگ بینگ‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کائنات کو وجود میں لانے والا گولہ پھٹنے کا سبب یہ تھا کہ اس کے اندر دباؤ کی اتنی قوت پیدا ہو گئی تھی کہ گولا اسے برداشت نہ کر سکا اور دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس عمل کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ جب پانی سے بھرے ہوئے ایک غبارے کو زور سے دبایا جاتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے اور پانی بکھر جاتا ہے۔
سائنس دانوں کے ایک گروپ کا یہ بھی نظریہ ہے کہ یہ کائنات پہلی بار نہیں بنی۔ اس سے قبل بھی کئی بگ بینگ ہو چکے ہیں اور کائناتیں بن چکی ہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب کائنات مکمل ہو جاتی ہے تو اس کی اندورنی قوتیں سیاروں اور ستاروں اور کہکشاؤں کو اپنی طرف کھینچنا اور اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیتی ہیں اور آخرکار ساری کائنات ایک بڑے گولے میں سمٹ جاتی ہے۔
ہماری کائنات میں یہ عمل اب بھی ہو رہا ہے جسے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں کئی معلوم اور ان گنت نامعلوم بلیک ہول موجود ہیں جو آس پاس کی چیزوں کو اپنی جانب کھینچ کر ہڑپ کر رہے ہیں۔ انہیں بلیک ہول اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ نظر نہیں آتے۔ اور وہ نظر اس لیے نہیں آتے کیونکہ وہ روشنی کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔
بات ناسا کی خلائی دوربین ویب سپیس سے شروع ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی مہنگی ترین دوربین ہے جسے ایک راکٹ کے ذریعے خلا کی گہرائیوں میں دس لاکھ میل دور بھیجا گیا ہے تا کہ ان دور دراز ستاروں اور کہلشاؤں کی تصویریں زمینی مراکز کو بھیج سکے جنہیں نہ تو زمین پر سے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے قبل خلا میں بھیجی جانے والی دوربین ہبل سے۔
ویب سپیس دوربین کائنات کے وجود میں آنے کے عمل کو سمجھنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ زمین پر ہم فاصلے میلوں اور کلومیٹروں میں ناپتے ہیں جب کہ خلا میں فاصلوں کی پیمائش نوری سال سے کی جاتی ہے۔
نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ 86 ہزار میل کا سفر کرتی ہے۔ سورج کی روشنی زمیں پر پہنچنے میں 8 منٹ سے کچھ زیادہ لیتی ہے۔
زیادہ دور واقع ستاروں اور کہکشاؤں کی روشنی زمین پر پہنچنے میں کئی سال بلکہ ہزاروں اور لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہمیں ستارے صرف اسی وقت نظر آتے ہیں جب ان کی روشنی ہم تک پہچتی ہے۔
کائنات کی وسعت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ہماری زمین کو وجود میں آئے تقریباً ساڑھے چار ارب سال ہو چکے ہیں، لیکن بہت سی کہلشائیں ایسی ہیں جن کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی اور ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے، جب کہ ان کے کئی ستارے اور شمسی نظام فنا ہو چکے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جب بگ بینگ ہوا تھا تو اس وقت پیدا ہونے والی روشنی اور توانائی کی لہریں جو لگ بھگ 14 ارب سال سے سفر میں ہیں، ابھی تک زمین پر نہیں پہنچیں۔ ان کے مشاہدے سے ہی معلوم ہو سکے گا کہ بگ بینگ کیسے ہوا تھا۔
فلکیات کے ماہرین طاقت ور دوربینیں خلا کی گہرائیوں میں بھیج کر اس روشنی کے قریب پہنچنا چاہتے ہیں جو بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی تھی۔ ویب سپیس دوربین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ناسا کی ویب سپیس سے منسلک ایک سائنس دان جین رگبی کا کہنا ہے کہ یہ وہ کہکشائیں ہیں جو دوسری خلائی دوربین ہبل کی نگاہوں سے بھی پوشیدہ تھیں۔ اور وہ اس انتظار میں تھیں کہ ہم ان تک پہنچ سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہماری تحقیق کے لیے وہاں بہت سی کہکشائیں موجود ہیں۔
ویب سپیس دوربین کی تیاری پر دس ارب ڈالر لاگت آئی تھی اور وہ زمین سے 16 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر سورج کے مدار میں گردش کر رہی ہے۔
اسے 25 مارچ 2021 میں لانچ کیا گیا تھا اور اپنے مقررہ مقام تک پہنچنے میں اسے 30 دن لگے۔ ناسا اس دوربین سے حاصل ہونے والی کائنات کی کئی حیرت انگیز تصویریں جاری کر چکا ہے۔