پاکستان خصوصاً کراچی میں’جمعہ بازار‘،’ اتواربازار‘ یا ’پیرومنگل بازار‘ کی اصطلاح کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ وہ بازار ہیں جو شہرکے مختلف علاقوں میں ہفتے کے مختلف دنوں میں لگائے جاتے ہیں اوراسی مناسبت سے انہیں سات دنوں کے ناموں سے منسوب کردیا گیا ہے۔ ان بازاروں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں مارکیٹ سے نسبتاً سستے داموں اشیاء ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط اورغریب گھرانے کے افراد ان بازاروں سے ہی ضرورت کی ہرچیز خریدتے ہیں۔
کار ،پاکستان میں ’اسٹیٹس سمبل ‘سمجھی جاتی ہے اسی لئے کسی مارکیٹ یا جگہ کی قدر کو زیادہ اہمیت دینے کے لئے یہ کہاجاتا ہے کہ ”وہاں تو بڑی بڑی کاروں والے لوگ بھی لائن لگاکر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔“ ہوسکتا ہے کسی دور میں یہ بات جمعہ یا اتوار بازاروں کے لئے نہ کہی جاتی ہو مگر جیسے جیسے مہنگائی نے پر پھیلائے ہیں، واقعی بڑی بڑی کاروں والے افراد نے بھی ان بازاروں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ گویا اب ان بازاروں کی قطاروں میں”محمود وایاز “یکساں نظر آنے لگے ہیں۔
شہر قائد کا اب کوئی بھی علاقہ ہو آپ کو ہر جگہ یہ بازار لگے ہوئے مل جائیں گے۔ یہاں جھاڑوسے لیکر قالین تک سب کچھ ملنے لگا ہے۔ بعض بازاروں کا حال یہ ہے کہ یہاں فرنیچر اور پردے تک سستے داموں ملتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ خوردنی اشیاء کی ڈیمانڈ یہاں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ خوردنی اشیاء میں بھی سبزیاں اور پھل سب سے پہلے نمبر پر آتے ہیں۔
چونکہ یہاں خریداروں کا رش ہوتا ہے لہذا ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی یہاں اپنے اپنے اسٹالز لگائے ہوتے ہیں۔ ان اسٹالز پر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات تو بکتی ہی ہیں، بعض ملٹی نیشنل فرمز کی مصنوعات بھی یہاں مل جاتی ہیں جن میں شیمپو، باتھ سوپ، کیچپ اپ، ڈیٹرجنٹ پاوڈر اور دیگر بے شمار چیزیں شامل ہیں۔
ان بازاروں کی بیشتر خریدارخواتین ہوتی ہیں۔ لہذا، وہی دکانداروں کے لئے زیادہ پرکشش گاہک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم، یہاں آنے والے مردوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہوتی۔ بیشتر مرد سودا سلف کے بیگزاٹھائے اپنی اپنی بیگمات کے پیچھے پیچھے چلتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ عورتیں زیادہ بارگینگ کرنے یا ریٹ گھٹانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ورنہ مردوں سے دکاندار زیادہ بھاوٴ تاوٴ نہیں کرتے۔
ان بازاروں کو سٹی گورنمنٹ یا بلدیہ کی نگرانی حاصل رہی ہے۔ یہی ادارے یہاں کا نصب ونسق سنبھالتے ہیں۔ ہرچیز کے ریٹس بھی انہی کی مرضی سے طے کئے جاتے ہیں۔ یہی ادارے دن بھر ان بازاروں کے تمام معاملات دیکھتے اور مسائل نمٹاتے ہیں۔
خریداروں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے، مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے مگر ان بازاروں میں پھر بھی قیمتیں کنٹرول میں رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ہفتے یہاں خریداروں کا پھیرا ضرور لگتا ہے۔
ان بازاروں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں مارکیٹ سے نسبتاً سستے داموں اشیاء ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط اور غریب گھرانے کے افراد ان بازاروں سے ہی ضرورت کی ہرچیز خریدتے ہیں