جاپان کے ایک ممتاز سیاسی اورکاروباری مشیر ہیروشی تاکاکو انے خبردار کیا ہے کہ، آسٹریلیااور جاپان کے درمیان وہیل کے شکار پر تنازع دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے پر جاری مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
آسٹریلیا کی حکومت اس سالانہ شکار کی شدید مخالف ہے جس کے بارے میں جاپان کا اصرار ہے کہ وہ سائنسی مقاصد کے لیے ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی روایات اور قومی شناخت سمیت دوسرے معاملات بھی زیر غور ہیں ۔
ناقدین، جن میں آسٹریلیا شامل ہے کہتے ہیں کہ ایک ہزار تک کی تعداد میں منک اور فن نسل کی وہیل کاشکار اصل میں گوشت اور کاروباری مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے ، جس کی بین الاقوامی قوانین کے تحت ممانعت ہے۔
کینبرا میں وزیر اعظم کیون رود نے وہیل کے شکار کے معاملے پر جاپان کے خلاف بین الاقوامی قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
مسٹر تاکاسو کہتے ہیں کہ وہیل کے مسئلے پر اختلافات سے دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں وہیل کے شکار کے تنازع کا حل ڈھونڈنا ہوگا اور دوطرفہ تعلقات کو خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ یہ صرف مچھلی کے شکار کا معاملہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت علامتی بھی ہے۔ اگرآپ وہیل کے شکار جیسا ایک مسئلہ حل نہیں سکتے تو پھر آپ دوسرے مسائل کیسے حل کریں گے۔
آسٹریلیا کے ساتھ جاپان کے تعلقات میں خطرات کے حوالے سےمسٹر تاکاسو کی رائے اہمیت رکھتی ہے۔ 2005ء میں انہیں دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار اور سیاسی تعلقات میں فروغ پر اپنے کام پرآسٹریلیا کا اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ ملا تھا۔
وہیل کے شکار کا مسئلے کی حساسیت میں ، خاص طورپر جنوبی نصف کرہ ارض میں گرمیوں کے موسم کے دوران اس وقت اضافہ ہوا جب جاپانی بحری جہاز جنوبی سمندر کے سرد پانیوں میں اپنی کارورائیاں کررہے تھے۔
آسٹریلیا نے تقریباً 30 سال قبل اس سمندری مامالیہ جانور کے شکار کے خلاف ایک بڑی سفارتی مہم شروع کرتے ہوئے وہیل کے شکار کے اپنے آخری مرکز کو بند کر دیا تھا۔