"اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنائی گئی سزائیں ایک ساتھ چلتی ہیں تو وہ مئی 2021 میں اپنی قید پوری کر چکے ہیں۔ لیکن اب ان کے کیس کو دوبارہ فاٹا ٹربیونل بھیج دیا گیا ہے۔ نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ 2014 سے اب تک اس پر جرح تک مکمل نہیں کی گئی۔"
یہ الفاظ ہیں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم ایڈووکیٹ کے جو فاٹا ٹربیونل کی بحالی کے بعد اس کیس کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا کھوج لگانے میں امریکہ کی مدد کرنے پر بعض حلقے غدار قرار دیتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں انہیں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے اور امریکہ بارہا پاکستانی حکام سے یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ شکیل آفریدی کو رہا کر کے امریکہ آنے کی اجازت دی جائے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 2011 میں پشاور کے علاقے کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر امریکہ کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن اُنہیں شدت پسند گروپ کی معاونت کے الزام میں ایف سی آر قوانین کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کی عدالت نے 33 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اپیلیں کئی برس تک فاٹا ٹربیونل میں زیرِ التوا رہی تھیں، تاہم فاٹا انضمام کے بعد یہ اپیل پشاور ہائی کورٹ منتقل کر دی گئی تھی جسے اب دوبارہ فاٹا ٹربیونل بھجوا دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے تین رکنی فاٹا ٹربیونل کی بحالی کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی سمیت 11 مقدمات کو پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ فاٹا ٹربیونل میں سماعت کے لیے بھیج دیا ہے۔
قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد فاٹا سیکرٹریٹ کے قیام کی خبریں، فاٹا ٹربیونل کی دوبارہ بحالی، افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد قبائلی اضلاع میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے بعد یہ تاثر پروان چڑھ رہا ہے کہ شاید فاٹا انضمام کا فیصلہ واپس لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
انضمام کے باوجود چار اگست 2023 کو شمالی وزیرستان کے اتمانزئی قبیلے کے 31 ملکان (قبائلی زعما) نے اپنے دستخطوں سے قومی جرگے کے بعد چار صفحات پر مبنی فیصلے جاری کیے۔
ان فیصلوں میں غیرت کے نام پر قتل کی ایف آئی آر واپس نہ لینے اور ملزم کو رہائی نہ دلوانے پر 30 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک جانب روایتی جرگوں کا تسلسل اور دوسری جانب فاٹا ٹربیونل کے قیام سے قبائلی حلقوں میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
SEE ALSO: اساتذہ کا قتل، ضلع کرم میں شیعہ سنی تنازع ہے کیا؟فاٹا ٹربیونل کیا ہے؟
پاک افغان سرحد پر واقع نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان پاکستانی آئین میں 25 ویں ترمیم سے قبل وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کہلائے جاتے تھے۔
ان علاقوں کو قیامِ پاکستان سے قبل ہی 1901 میں انگریزوں نے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کا قانون دیا۔ اس قانون میں انتظامی اور عدالتی اختیارات پولیٹیکل انتظامیہ کے پاس ہوتے تھے۔
انسانی حقوق کی بنیاد پر اس قانون کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً اس قانون میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جانے لگا۔
سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں عسکریت پسندی اور آپریشنز کے باعث سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے کو خوب ابھارا۔ اس دوران اصلاحاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور آخر کار 2011ء میں ایف سی آر کی شق 55 اے میں ترمیم کر کے فاٹا ٹربیونل کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا۔
اس ادارے میں گریڈ 21 کے سرکاری ملازم جسے قبائلی انتظامی اُمور کا تجربہ بھی ہو کو چیئرمین بنایا گیا جب کہ ہائی کورٹ کے سابق جج اور ایک 20 گریڈ کے بیورو کریٹ کو بھی اس کا رُکن بنایا گیا۔
ٹربیونل میں وہ عدالتی معاملات لائے جاتے جو عدلیہ کی طاقت رکھنے والے قبائلی علاقوں میں تعینات بیوروکریٹ یا سرکاری جرگے سے فیصلہ نہ ہو پانے یا اس کے خلاف اپیل کے طور پر لائے جاتے۔
تاہم 2018 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے آئین میں 25 ویں ترمیم کر کے سابق فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کر کے ایف سی آر سمیت فاٹا ٹربیونل کا خاتمہ کر دیا۔
سجید خان آفریدی دیگر وکلا کے ہمراہ ایک مقدمے کی پیروی کر رہے تھے جب پشاور ہائی کورٹ نے فاٹا ٹربیونل بحال کرنے کا حکم دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ضلع خیبر کی وادیٔ تیراہ میں ایک جنگل کی ملکیت کا جھگڑا فاٹا ٹربیونل سے پشاور ہائی کورٹ منتقل ہوا۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہائی کورٹ یہ فیصلہ کرے۔ لیکن ہمارے کیس کی سماعت اور ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فاٹا ٹربیونل کے قیام کی ہدایت کی۔"
سجید خان آفریدی کے مطابق ہم تو قطعاً یہ نہیں چاہتے تھے لیکن ہمیں ایک بار پھر فاٹا ٹربیونل کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ ان 11 مقدمات میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ بھی تھا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل کو تین مقدمات میں دس، دس برس اور ایک مقدمے میں تین برس قید کی سزا سنائی گئی۔ اُن کے بقول زیادہ تر عدالتیں حتمی فیصلے میں تمام سزاؤں کو یکجا کر دیتی ہیں جنہیں 'کنکرنٹ' کہا جاتا ہے۔ لہذٰا وہ 10 برس قید کی سزا پوری کر چکے ہیں۔
اُن کے بقول شکیل آفریدی کی تمام سزائیں بیک وقت شروع ہوئیں تو اس لحاظ سے وہ اپنی سزا پوری کر چکے ہیں۔
قمر ندیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اگر پشاور ہائی کورٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کو برقرار بھی رکھتی تو وہ پہلے ہی 10 سال قید پوری کر چکے ہیں۔
اُن کے بقول ہم ہائی کورٹ سے یہی توقع کر رہے تھے لیکن ایک بار پھر اس کیس کو فاٹا ٹربیونل کے سپرد کر دیا گیا۔
'ہم نے پرامن فاٹا حوالے کیا جہاں اب بدامنی ہے'
سن 2018 کے بعد خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی دوسری بار حکومت بنی۔ تاہم قبائلی ارکینِ پارلیمنٹ اور قبائلی عوام کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ انضمام کے بعد جو وعدے کیے گئے وہ پورے نہیں ہوئے۔
فاٹا ریفارمز میں پیش پیش پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان کا کہنا ہے کہ انضمام کے دو حصے تھے۔
اُن کے بقول ایک تو انسانی حقوق کے حوالے سے تھا جس میں عدلیہ کا کردار تھا۔ جب کہ دوسرا قبائلی علاقوں میں سہولتوں کا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں 10 سال تک ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا اور سالانہ 100 ارب روپے ان علاقوں کی ترقی کے لیے فراہم کیے جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
اُن کے بقول حقوق کی حد تک تو ٹھیک رہا کہ اعلیٰ عدالتوں تک ہماری رسائی رہی لیکن جہاں تک سہولتوں کا تعلق ہے یہ ساری ذمے داری منتخب نمائندوں کی تھی۔
اخونزادہ چٹان کے مطابق پی ٹی آئی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں اس حوالے سے نہ آواز اُٹھائی اور نہ ہی احتجاج کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جو پرامن فاٹا ہم نے صوبے کے حوالے کیا تھا، وہ انضمام کے بعد ایک بار پھر بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔
جولائی 2023 میں قبائلی ضلع کرم میں زمین کی ملکیت پر دو اقوام کی لڑائی نے فرقہ واریت کو جنم دیا اور کئی شہری جان کی بازی ہار گئے۔
سابق فاٹا میں زمینوں کی تقسیم اقوام کی سطح پر تھی۔ اب جب فاٹا کا انضمام ہو گیا تو پوری قبائلی پٹی میں وقتاً فوقتاً تصادم کے واقعات ہو رہے ہیں۔
قبائلی ملکان کا کہنا ہے کہ ملک کے مروجہ قوانین ان کے اراضی کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انضمام نے نئی پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے۔
ان تنازعات کو قریب سے دیکھنے والے طارق افغان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ زمینوں کے ریکارڈ کا ہے۔ حقیقت میں قبائلی اضلاع میں ملک کے دوسرے اضلاع کی طرح ریونیو کا ریکارڈ نہیں ہے کیوں کہ زمینوں کی تقسیم یہاں ملک کے دیگر حصوں کی طرح نہیں ہوئی ہے۔
اُن کے بقول "جس طرح ہمارے ہاں انفرادی حیثیت سے باقاعدہ کھاتہ نمبر خسرہ نمبر قابلِ کاشت اراضی کا مکمل ریکارڈ پٹوار خانے میں ہوتا ہے ویسا قبائلی اضلاع میں نہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں اقوام کی زمینیں ہیں۔ مثلاً ایک پہاڑ ہے تو وہ پوری قوم کا پہاڑ ہے۔ پھر اس کی تقسیم ذیلی اقوام میں ہوتی ہے اور پھر نیچے جا کر جرگے کے ذریعہ انفرادی پہاڑ یا زمین کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اس کو ایف سی آر میں ٹرائبل ٹیرٹری یا قبائلی خطہ کہا جاتا تھا، چوں کہ ریکارڈ نہیں ہے اس لیے فیصلے روایتی طریقوں سے مقامی جرگوں کے ذریعے ہو رہے ہیں۔
طارق افغان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ چوں کہ پولیس تھانوں اور عدالتوں کے قیام میں مطلوبہ انتظامات اور دیگر انتظامی امور میں تاخیر ہوئی اس لیے قبائلی علاقوں کے شہری جرگے کی جانب راغب ہونے پر مجبور ہوئے۔
اُن کے بقول حکومتی رٹ اس حد تک کمزور ہو گئی کہ نہ صرف عسکریت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا بلکہ روایتی قبائلی ملکان نے بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے جرگے منعقد کیے۔
طارق افغان ایڈووکیٹ کے بقول ان میں سے ایک جرگہ شمالی وزیرستان میں بھی منعقد ہوا۔ اس جرگے میں اتمانزئی وزیر قبائل کے مشران نے یہاں تک فیصلہ کیا کہ اگر کسی کی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہوا تو وہ اسسٹنٹ کمشنر یا کرنل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اس سے اوپر وہ ملاقات نہیں کر سکتا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید اسی بدانتظامی اور ابتری کو دور کرنے کے لیے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ان مسائل کے حل کے لیے "فاٹا سیکرٹریٹ" کی بحالی کا عندیہ دیا تھا۔
کیا فاٹا ٹربیونل کی طرح فاٹا سیکرٹریٹ بھی بحال ہو رہا ہے؟
یہ بحث دراصل اس وقت شروع ہوئی جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں پشاور میں قبائلی عمائدین کے ایک وفد سے خطاب کیا۔
قبائلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ "ہم آپ میں سے ہیں اور آپ ہم میں سے ہیں، فوج اور سیکیورٹی کے تمام ادارے اور پاکستان کے عوام ایک ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ قبائلی عوام کی معاشی ترقی سے متعلق ترقیاتی منصوبوں میں ان کی شرکت یقینی بنائیں گے۔
طارق افغان ایڈووکیٹ کے بقول "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک نئے نظام کی تیاری کی جا رہی ہے۔ علیحدہ سے سیکرٹریٹ قائم کر کے اس کو صوبے سے پھر چھینا جا رہا ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ کمال کی بات یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے علاوہ سب خاموش ہیں۔ کوئی اس پر نہیں بول رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا:’’ ایک علیحدہ سیکرٹریٹ کا مطلب کیا ہے کہ کیا پھر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اس خطے کو چلایا جائے گا-"
اخونزاہ چٹان کا کہنا تھا کہ "اگر یہ سوچا جا رہا ہے کہ فاٹا سیکرٹریٹ قائم کر کے کرپشن کا بازار گرم کیا جائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔"
اُن کے بقول اب اتنے ادارے کام کر رہے ہیں کہ کرپشن مشکل ہو گی۔ دراصل فاٹا کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہم نے انضمام کا فیصلہ ہی اس لیے کیا تھا کہ قبائل کے وسائل کی لوٹ مار جاری تھی اور ہم پوچھ نہیں سکتے تھے۔"
گو کہ اب تک واضح نہیں ہے کہ فاٹا سیکرٹریٹ کی بحالی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ لیکن خود قبائلی عوام کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ انضمام کے بعد ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اخونزادہ چٹان کی طرح کئی سیاسی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ انضمام کے بعد ان علاقوں کو جس توجہ کی ضرورت تھی وہ نہیں دی گئی۔
کیا فاٹا کے انضمام کی واپسی ممکن ہے؟
فاٹا سے تعلق رکھنے والے ملکان، جمعیت علمائے اسلام(ف)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) نے انضمام سے قبل فاٹا کے انضمام کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
سیاسی جماعتوں میں تو اب وہ مخالفت نہیں رہی لیکن خود کئی قبائلی ملکان ایسے ہیں جو فاٹا کے انضمام کی واپسی کی بھرپور حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
انضمام کے بعد قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے حاجی بسم اللہ جان نے اس کے خلاف "قبائل قومی جرگہ" کے نام سے ایک تحریک شروع کی۔
چیئرمین قبائل قومی جرگہ حاجی بسم اللہ کہتے ہیں کہ "انضمام بانی پاکستان محمد علی جناح کے ساتھ تمام قبائل کے عہد کی نفی ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ یہ قبائلی مزاج کے خلاف ہے۔ ہمارا رواج، ہمارے تنازغات، ہماری ثقافت، ہماری تاریخ باقی پاکستان سے الگ ہے تو کس طرح ان قوانین سے ہمیں چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حاجی بسم اللہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاحات کے قائل تھے لیکن اس طرح انضمام تو قبضہ ہے۔ انضمام سے پہلے ہمارے تنازغات اور اس کے حل کے لیے جرگوں کی کارکردگی دیکھیں اور اب عدالتوں میں ہمارے تنازغات کی حالت دیکھیں جب ریکارڈ ہی نہیں ہے تو یہ فیصلے کس طرح ہو رہے ہیں؟
اخونزادہ چٹان کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک طبقہ اس انضمام کی مخالفت کر رہا ہے اور اس علاقے کو واپس فاٹا بنانے کے لیے ان کی خواہشات ہو سکتی ہیں لیکن اس کے لیے پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔
اُن کے بقول اب جب کہ لگ بھگ تمام سیاسی جماعتیں انضمام کے حق میں ہیں ایسا نا ممکن ہے۔