|
ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی قیادت میں بننے والے اتحاد 'مزاحمت کے محور' کے لیے شام میں بھی بعض گروپس کو منظم کر رکھا تھا۔
ان گروپس کا مقصد شام میں بشار الاسد حکومت کا دفاع کرنا تھا۔
'فاطمیون بریگیڈ' افغان شیعہ کمیونٹی کے افراد پر مشتمل تھی جنہیں ایران سے یہاں لا کر منظم کیا گیا تھا جب کہ ایک اور گروپ 'زینبیون بریگیڈ' پاکستان کے شیعہ مذہبی گروہوں پر مشتمل تھی۔
شام کی خانہ جنگی کے عروج پر دونوں گروپس شامی افواج کے شانہ بشانہ دولتِ اسلامیہ (داعش) کی جانب سے قبضے میں لیے گئے علاقے واپس لینے کے لیے لڑتے رہے۔ ان علاقوں میں حلب، المیرا، دیر الزور اور رقہ شامل ہیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں جب باغی گروپس نے شام میں تیزی سے پیش قدمی کی تو بعض رپورٹس اور ریسرچرز کے مطابق یہ جنگجو اپنی چوکیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
تقریباً 20 برس تک ایرانی پراکسی گروپس پر تحقیق کرنے والے فلپ اسمتھ کہتے ہیں کہ ان کی مرکزی چوکیاں جہاں لگ بھگ ایک ہزار جنگجو موجود رہتے تھے مکمل طور پر خالی تھیں۔
'ایران کو اب بھی ایسے گروپس کی ضرورت ہے'
ماہرین کے مطابق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ جنگجو اب کہاں ہیں۔ تاہم ایران کی جانب سے انہیں ایسے وقت میں ختم کرنے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ ایران کی دیگر پراکسیز 'حماس' اور 'حزب اللہ' مشکل دور سے گزر رہی ہیں۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ ایران کو ایسی قوتوں کی ضرورت ہے کیوں کہ اب وہ صرف 'حزب اللہ' اور دیگر علاقائی شراکت داروں پر اںحصار نہیں کر سکتے۔ لہذٰا وہ ایسے گروپس کو اپنے ساتھ رکھیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اب انہیں مختلف طریقوں سے تیار کریں۔
'فاطمیون' اور 'زینبیون' شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں میں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب 'داعش' نے شامی حکومت کو دھمکانا شروع کیا۔ شام میں شیعہ مزارات اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
فاطمیون کا آغاز 2012 میں صرف چند افغان شیعہ رضاکاروں کے ساتھ ہوا۔ کچھ 1980 کی ایران عراق جنگ اور افغان خانہ جنگی میں لڑ چکے تھے جب کہ کچھ شام میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے تھے۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ ابتداً یہ اسد کے حامی جنگجو دھڑوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ تاہم 2013 میں یہ ایک الگ گروپ کے طور پر سامنے آئے جن کی قیادت ایرانی فوج کے کمانڈر بھی کرتے رہے۔
اسمتھ کے مطابق پاکستانی زینبیون جو دونوں گروہوں میں سے چھوٹا تھا، ابتدائی طور پر افغان فاطمیون کا حصہ تھا۔ لیکن اُن کے بقول یہ اُن کے ساتھ رچ بس نہیں سکے جس پر ایران کے پاسدرانِ انقلاب نے انہیں الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ریسرچرز کے مطابق ابتداً تردید کے باوجود دونوں گروپس کے لیے بھرتی، مسلح تربیت اور فنڈنگ میں پاسدرانِ انقلاب کی شمولیت ایک کھلا راز تھی۔
اسمتھ کے مطابق پاسدرانِ انقلاب نے افغان مہاجرین اور تارکینِ وطن کو بھرتی کرنے کے لیے مراعات کی پیش کش کی۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو قانونی حیثیت دینے اور رقم دینے کی بھی ترغیب دی گئی۔ کچھ افراد کو جیلوں سے نکال کر 'فاطمیون بریگیڈ' میں شمولیت کے عوض ان کا کرمنل ریکارڈ ختم کرنے کی بھی پیش کش کی گئی۔
دیگر جنگجو مذہبی اور نظریاتی طور پر متحرک تھے جو مقدس مقامات اور مزارات کو 'داعش' سے بچانے کے لیے پُرعزم تھے۔ ایران کے دینی مدارس سے بھی بہت سے افغان اور پاکستانی شہریوں کو بھرتی کیا گیا۔
ان تنظیموں کی بھرتی کا دائرۂ کار افغانستان اور پاکستان تک پھیل گیا جہاں ایران سے قربتیں رکھنے والے شیعہ گروپس نے رضاکاروں کو بھرتی کیا جس پر ان ممالک کے حکام نے تنقید بھی کی۔
پاکستان میں عسکریت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے فخر کاکا خیل کے مطابق 'زینبیون' کے بہت سے ارکان کو پاکستان کے شیعہ اکثریتی قبائلی ضلع کرم، گلگت، جنوبی پنجاب اور کوئٹہ میں ہزارہ آبادی سے بھرتی کیا گیا۔
جیسے جیسے شام میں خانہ جنگی میں شدت آتی رہی اور 'داعش' ایک طاقت ور قوت بن کر اُبھری ایسے ہی ان دونوں گروپس کی طاقت میں بھی اضافہ ہوا۔
سن 2015 میں ایرانی فوج سے منسلک ایک 'نیوز آؤٹ لیٹ' نے بتایا کہ 'فاطمیون' کو بریگیڈ سے بڑھا کر اب ڈویژن کر دیا گیا ہے جس کا مطلب اس میں اب 10 سے 20 ہزار جنگجو تھے۔
اسمتھ کا کہنا ہے کہ ان 'فاطمیون' جنگجوؤں کی تعداد پانچ سے 10 ہزار جب کہ زینبیون کی تعداد 2500 سے چار ہزار تھی۔
شام کی خانہ جنگی میں کردار
ایک آزاد تحقیقی گروپ 'آرمڈ کانفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا' کے مشرقِ وسطیٰ کے ریسرچر معاذ ال عبداللہ کے مطابق دونوں گروپس شام کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں سرگرم رہے۔
عبداللہ کے مطابق ان گروپس کا بنیادی کام 'داعش' کی جانب سے قبضے میں لیے گئے علاقوں سے کنٹرول واپس لینے کی کوشش کرنا تھا۔ شامی فوج اور حکومت کے حامی فوجی اڈوں کا دفاع کرنا بھی تھا۔
ان کے بقول دونوں بریگیڈز کے جنگجوؤں نے حلب اور جنوبی شام کی لڑائیوں میں بھی حصہ لیا۔
سن 2018 میں 'فاطمیون' کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے دو ہزار جنگجو ہلاک جب کہ آٹھ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم زینبیون بریگیڈ کی ہلاکتوں یا زخمیوں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ 'فاطمیون' کو شام میں 'توپوں کے چارے' کے طور پر استعمال کیا گیا۔
'اسد رجیم' کے آخری دنوں میں کیا ہوا؟
حالیہ برسوں میں شامی فوج کی جانب سے ملک کے بیش تر حصے میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان جنگجو گروپس کی تعداد کم ہوتی گئی۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود اسد حکومت کے زوال سے پہلے شام میں 'فاطمیون' اور 'زینبیون' کے 2500 سے پانچ ہزار جنگجو موجود تھے۔
ان کے بقول ان میں سے زیادہ تر شمال مشرقی شام، کچھ دمشق کے اطراف اور بعض حلب اور ملک کے دیگر حصوں میں آپریٹ کر رہے تھے۔
SEE ALSO:
کیا ترکیہ امریکی خواہش کے مطابق داعش کو شام میں قدم جمانے سے روک پائے گا؟شام میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد البشیر کون ہیں؟’انسانی مذبح خانے‘ کے نام سے معروف اسد حکومت کے صيدناياجیل کے قیدیوں کی دلدوز کہانیاںگزشتہ ماہ باغیوں کی حیرت انگیز پیش قدمی کے دوران دمشق کے اطراف گھمسان کی لڑائی کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ توقع تھی کہ پاسدرانِ انقلاب اور اس کی پراکسیز ڈٹ کر باغیوں کا مقابلہ کریں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
گزشتہ ہفتے ایک عراقی ملیشیا کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں 'فاطمیون' کے جنگجوؤں کو سیدہ زینب کے مزار کے اطراف گشت کرتے دکھایا گیا تھا۔
اسمتھ کے مطابق ان میں سے کچھ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ اس مزار کا تحفظ کریں گے اور کسی صورت یہاں سے نہیں جائیں گے۔
ایرانی ٹیلی ویژن پر پاسدرانِ انقلاب فورس کی جانب سے بھی اسی نوعیت کے پیغامات نشر کیے جا رہے تھے۔
اسمتھ کے مطابق ان پیغامات میں پاسدرانِ انقلاب فورس کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ "فکر مت کریں ہمارے لوگ تربیت یافتہ ہیں اور بہت سخت جنگ لڑ رہے ہیں۔"
اسمتھ کہتے ہیں کہ اُنہیں نہیں معلوم وہاں پھر کیا ہوا، کیوں کہ ہلاکتوں یا زخمیوں کی کوئی فہرست سامنے نہیں آئی۔ بلکہ باغی گروپس کی جانب سے خالی چیک پوسٹوں پر قبضہ کرنے کے مناظر دیکھے گئے۔
ایک ویڈیو میں ایک باغی جنگجو بظاہر فاطمیون کی جانب سے خالی کی گئی چیک پوسٹ پر سے فاطمیوں اور ایران کا جھنڈا اُتارتے ہوئے سخت زبان استعمال کر رہا ہے۔
لیکن 'فاطمیون' اور 'زینبیون' کے یہ جنگجو کہاں گئے؟ بعض اطلاعات کے مطابق وہ عراق میں داخل ہو گئے جب کہ کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاسدرانِ انقلاب فورسز کے ساتھ ایران چلے گئے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان میں سے کچھ شام سے فرار ہونے والے حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ لبنان چلے گئے ہیں۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ اب بھی کچھ جنگجو شام میں باقی رہ گئے ہیں جو انخلا کے منتظر ہیں۔ تاہم ان کی افغانستان اور پاکستان واپسی ناممکن نظر آتی ہے، جہاں حکام نے ان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کر رکھا ہے۔
اس خبر میں وائس آف امریکہ 'ڈیوہ سروس' کے افتحار حسین کی معاونت بھی شامل ہے۔