قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بجائے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے قرار داد کو خلافِ آئین قرار دے کر مسترد کرنے اور وزیر اعظم کی تجویز پر اسمبلی کی تحلیل سے پاکستان میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہوگیا۔
جس کے بعد سے ملک میں آئین کے بنیادی آرٹیکلز میں شامل آرٹیکل پانچ ،چھ اور دستور میں بیان کردہ اسپیکر، صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات پر قانونی و آئینی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔
اتوار کو جب تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن بیرونی سازش کے تحت وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہے جو آرٹیکل پانچ کے تحت ریاستِ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔
آئینی بحران کیسے پیدا ہوا؟
وفاقی وزیر فواد چوہدری کی تقریر کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدمِ اعتماد کی تحریک کو خلافِ آئین قرار دے کر مسترد کردیا جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری بھجوا دی۔وزیرِ اعظم کی تجویز پر صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی۔
اس اقدام سے پیدا ہونے والے آئینی بحران کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پر قرار داد پیش ہونے کے سات دن کے اندر اندر رائے شماری کرنا ضروری ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل میں اسپیکر کے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے اختیار کا ذکر نہیں ہے۔
اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 62 دو کا ذکر بھی کیا جارہا ہے جس کے تحت اسمبلی میں ہونے والی کارروائی ’کسی عدالت کے اختیارِ سماعت کے تابع‘ نہیں ہوگی۔
آئین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع ہوچکی ہو تو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو نہیں بھیج سکتے۔
تاہم موجودہ صورت حال میں تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد وزیرِ اعظم کی تجویز پر صدر اسمبلی تحلیل کرچکے ہیں۔ اس بارے میں آئین کے آرٹیکل 48 کی شق دو اور چار کا حوالہ دیا جارہا ہے جس کے مطابق صدر کے کسی اقدام کی تفتیش کوئی عدالت،ٹریبونل یا مجاز ادارہ نہیں کرسکتا۔تاہم ان سوالات کی آئینی تشریح کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا انتظار ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات: یہ کہانی بہت پرانی ہےاس آئینی بحران میں قانونی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث آنے والے آرٹیکل پانچ، چھ، آرٹیکل 224، آرٹیکل 58 سمیت دیگر آئینی پہلوؤں پر بھی بات ہورہی ہے جس میں خاص طور پر سنگین غداری سے متعلق آئین کا آرٹیکل چھ سرفہرست ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل چھ کیا کہتا ہے؟
دستورِ پاکستان کا آرٹیکل چھ آئین سے غداری یا منحرف ہونے سے متعلق ہے۔آرٹیکل چھ کی پہلی شق میں واضح کیا گیا ہے کہ کون آئین سے غداری کا مرتکب سمجھا جائے گا۔
اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو آئین توڑنے، معطل کرنے، تنسیخ کرنے یا ماورائے آئین کام کرنے یا آئینِ پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا ارتکاب کرے گا وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
آرٹیکل چھ کی دوسری شق میں واضح ہے کہ کوئی بھی شخص جو مذکورہ بالا خلافِ آئین اقدامات کا مرتکب ہو یا اس میں سہولت کاری یا معاونت کرتا ہے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
آرٹیکل چھ کی شق دو اے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی عدالت بشمول ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین سے انحراف کے کسی بھی اقدام کی توثیق نہیں کر سکتی۔
اسی آرٹیکل کی شق تین میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے شخص کی سزا مقرر کرے گی جس پر سنگین غداری کا جرم ثابت ہو چکا ہو۔
خیال رہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا تھا اور اس کے خلاف ایک خصوصی عدالت بھی قائم کی گئی تھی۔
اس وقت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سمیت دیگر ججز پر مشتمل بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کو آرٹیکل چھ کا مجرم قرار دیتے ہوئے اُنہیں سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے قیام کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔ افواجِ پاکستان نے بھی خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو فوج کی توہین قرار دیا تھا۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اتوار کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئےکہا کہ وزیرِ اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
آرٹیکل پانچ ، 'ریاست سے وفاداری ہر پاکستانی کی ذمے داری'
اس آرٹیکل کی دو شقیں ہیں جس میں سے پہلی شق میں درج ہے کہ ریاست سے وفاداری ہر پاکستانی شہری کی بنیادی ذمے داری ہے۔
آرٹیکل پانچ کی شق دو میں درج ہے کہ ہر پاکستانی شہری خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا باہر اس کے لیے ریاستِ پاکستان کے آئین کی اطاعت لازمی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل پانچ کے تحت وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئےمسترد کیا ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رُجوع کر لیا ہے۔
آرٹیکل 48 اور 58
دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 58 میں درج ہے کہ صدرِ پاکستان آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر 48 گھنٹے کے اندر اندر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہیں۔
آرٹیکل 58 کی شق دو میں درج ہے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کوئی دوسرا قائدِ ایوان قومی اسمبلی کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو بھی صدر مملکت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں۔
تاہم موجودہ صورتِ حال میں یہ سوال درپیش ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف جس طرح عدم اعتماد کی تحریک کو بغیر رائے شماری کے مسترد کیا گیا ہے اس کی آئینی حیثیت کیا ہے۔اور یہ کہ ان حالات میں وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو بھیجنے کا آئینی جواز رکھتے تھے یا نہیں؟