غزہ میں جنگ بندی، فلسطینی ’اسلامک جہاد‘ گروپ کون ہے؟

پی آئی جے کو حماس کا اتحادی گروپ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ فائل فوٹو۔

مصر کی ثالثی سے غزہ میں اسرائیل اور مسلح گروہ ’اسلامک جہاد‘ کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ہے البتہ اس حالیہ کشیدگی میں اسرائیل کی مرکزی حریف تصور ہونے والی تنظیم حماس لاتعلق رہی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پیر کی صبح ہونے والی اس ’کمزور‘ جنگ بندی کے بعد امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ غزہ میں جاری مسلح جھڑپیں ختم ہو جائیں گی، جس میں 15 بچوں سمیت 44 فلسطینیوں کی جان جا چکی ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے اور اس کے لیے مصر کے کردار ادا کرنے پر صدر عبدالفتح السیسی کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔علاوہ ازیں صدر بائیڈن نے شہریوں کے جانی نقصان کو المیہ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹور وینزلینڈ نے کہا ہے کہ ابھی صورتِ حال نازک ہے اور میں فریقین پر جنگ بندی کی پاسداری کے لیے زور دیتا ہوں۔

جمعے کو شروع ہونے والی کشیدگی میں اسرائیل نے غزہ میں اسلامک جہاد کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا جب کہ ردِ عمل میں مسلح گروپ نے سینکڑوں میزائل داغے تھے۔

البتہ اسرائیل نے کشیدگی کے ابتدا ہی میں واضح کردیا تھا کہ اس کی کارروائیاں غزہ پر حکمرانی کرنے والی حماس کے خلاف نہیں بلکہ ان کا نشانہ فلسطینی اسلامک جہاد (پی آئی جے) نامی عسکری گروہ ہے۔

SEE ALSO: اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم 'اسلامک جہاد' کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق

فلسطینی اسلامک جہاد گروپ کون ہے؟

ایران کے حمایت یافتہ گروپ فلسطینی اسلامک جہاد (پی آئی جے) کی بنیاد 1981 میں رکھی گئی تھی۔ اس کا منشور اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کرنا ہے۔

پی آئی جے کا آغاز غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے ہوا تھا اور اسے حماس کی اتحادی تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔حماس اور اسلامک جہاد دونوں فکری طور پر گزشتہ صدی کے دوران مصر میں شروع ہونے والی تحریک تنظیم اخوان المسلمون سے وابستہ ہیں۔

پی آئی جے اسرائیل کے زیرِ انتظام مغربی کنارے میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ اسرائیل اصرار کرتا ہے کہ اسلامک جہاد کے ایران کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔

ایران سے قریبی روابط

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم یائیر لاپیڈ نے کہا تھا کہ جب انہوں ںے جمعے کو اسلامک جہاد کے خلاف پیشگی حملوں کے احکامات دیے تو اس وقت گروہ کے لیڈر زید الخلہ ایران میں موجود تھے۔

ایران کی انقلابی گارڈز کے سربراہ میجر جنرل حسینی سلامی نے بتایا تھا کہ ہفتے کے روز تہران میں ملاقات کے دوران نخلہ کو بتایا تھا کہ ہم آخر تک اس راستے پر آپ کے ساتھ ہیں۔

اسلامک جہاد کے مسلح ونگ جو القدس بریگیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے جو 1992 میں قائم کیا ہوا تھا۔

امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے اس اسلامک جہاد کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ گروپ 2000 سے 2005 کے دوران دوسرے فلسطینی انتفادہ میں اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کئی خود کش حملوں کی ذمے داری بھی قبول کرچکا ہے۔

SEE ALSO: یروشلم کے مقدس مقامات کی اہمیت اور تاریخ کیا ہے؟

گروپ کی سب سے نمایاں کارروائی 1989 میں تل ابیب سے یروشلم جانے والی بس پر حملے کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کارروائی میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس گروپ کی سینیئر قیادت شام کے دارالحکومت دمشق میں بھی قیام پذیر رہی ہے۔اسلامک جہاد اسرائیل کے ساتھ معاہدۂ اوسلو کے تحت کسی بھی قسم کے مذاکرات کی شدید مخالف ہے۔

حماس تنازع سے لاتعلق کیوں؟

اگرچہ اسلامک جہاد ماضی میں حماس کے ساتھ مل کر کارروائیاں بھی کرتی رہی ہے۔ خاص طور پر گزشتہ برس مئی میں 11 روز تک جاری رہنے والے اسرائیل اور حماس کے تنازع میں بھی اس نے حماس کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن حالیہ جھڑپوں میں اس گروپ کی آزاد حیثیت واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق جمعے سے اسلامک جہاد اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں میں حماس نے راکٹ فائر نہیں کیے۔

اس کے علاوہ 2019 میں بھی حماس اسلامک گروپ کے سربراہ بہا ابوالعطا کی اسرائیل کی کارروائی میں موت کے بعد شروع ہونے والے تنازعے میں لاتعلق رہی تھی۔

حماس اور اسلامک جہاد میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں لیکن یہ دونوں اپنا الگ الگ تشخص رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حماس کے قائدین کے اسرائیل کے خلاف بیانات میں قدرے نرمی آئی ہے لیکن اسلامک جہاد اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔

SEE ALSO: عرب خطے کی تقسیم کا اہم کردار لارنس آف عریبیہ، جسے گمنامی کی خواہش کراچی لے آئی تھی

حماس اور اسلامک جہاد دونوں 2009 سے اسرائیل کے ساتھ مختلف تنازعات میں شریک رہے ہیں۔ دونوں ہی کو ایران سے ہتھیار اور مالی امداد ملتی رہی ہے لیکن اسلامک جہاد کو ایران کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔

مغربی کنارہ

حماس کے برعکس فلسطینی اسلامک جہاد (پی آئی جے) گروپ غزہ یا مغربی کنارے میں حکومت سازی میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔

اس گروپ کی زیادہ تر قوت اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں ہے۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق اس گروپ میں شامل افراد کی تعداد ایک ہزار سے کئی ہزار تک ہوسکتی ہے۔

تاہم صرف پی آئی جے کا خود کو مسلح کارروائیوں تک محدود رکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس حماس جیسا انفرااسٹرکچر نہیں ہے۔ نہ ہی یہ گروپ حماس کی طرح انتظامی تجربہ رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ حماس 2007 سے غزہ میں تقریباً 23 لاکھ آبادی رکھنےو الے علاقے کے انتطام و انصرام کو سنبھال رہی ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق مئی 2021 میں میں 11 روز تک جاری رہنے والے مسلح تنازع میں غزہ کی معیشت کا شدید نقصان ہوا تھا۔ حالیہ تنازع میں اسرائیل کی توجہ پی آئی جے پر مرکوز تھی اس لیے حماس نے خود کو لڑائی سے دور رکھا ہے۔

اسرائیل ایئر ڈیفنس فورس (آئی اے ڈی ایف) کے سابق کمانڈر زویکا ہیمووچ کا کہنا ہے کہ پی آئی جے اور حماس کے مابین اختلاف رائے کی وجہ سے حماس حالیہ تنازع میں لاتعلق رہی ہے۔

ان کے مطابق اس تنازع سے حماس کا کوئی براہ راست مفاد وابستہ نہیں تھا۔ اگر وہ اس میں شریک ہوتی تو صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی ‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔