سندھ میں مخالف جماعتیں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم کیوں نہیں دے پاتیں؟

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی عمل سے باہر ہونے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں زیادہ دلچسپی کے باعث بعض ماہرین ایک بار پھر سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کی سیاست میں کئی ایسے محرکات ہیں جس کی وجہ سے کئی دہائیوں سے پیپلزپارٹی یہاں راج کر رہی ہے۔ لہٰذا آٹھ فروری کے انتخابات میں بھی سندھ میں کوئی بڑا سرپرائز ملنے کا امکان نہیں ہے۔

کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک طرح سے سندھ سے بے فکر ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کا محور پنجاب ہے جہاں وہ پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں مسلم لیگ (ن) مخالف ووٹ بینک کو راغب کر رہے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو سندھ میں کوئی بڑا چیلنج نہیں ملتا اور پارٹی 2008 کے بعد سے مسلسل اقتدار میں ہے؟ اس کے لیے وائس آف امریکہ نے سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین سے بات کی ہے۔

انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی وقاص باقر کہتے ہیں کہ اس میں پیپلز پارٹی کے مخالفین کا خود بھی قصور ہے کیوں کہ وہ منظم اور زوردار انتخابی مہم نہیں چلا پاتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وقاص باقر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے سندھ کا میدان مکمل طور پر خالی چھوڑا ہوا ہے جب کہ ایم کیو ایم کی سیاست کا محور صرف شہری علاقے ہیں۔

وقاص باقر کے بقول پیپلز پارٹی کی مسلسل کامیابی اور سندھ میں کسی بڑی مخالفت کے کم سامنے آنے کی وجہ پرفارمنس نہیں بلکہ ووٹنگ پیٹرن ہے۔

اُن کے بقول شہریوں کا عمومی رویہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو فاتح بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہاں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے برعکس ووٹ، تبدیلی یا کسی دوسرے مقصد کے بجائے مختلف عوامل کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں خوف کا عنصر بھی شامل ہے اور مخالفین کو یہاں پنپنے ہی نہیں دیا جاتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر واقعی صحیح معنوں میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے تو پیپلز پارٹی اپنی کئی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انتظامیہ پر اثرو رسوخ

نیوز چینل 'کے ٹی این نیوز' سے منسلک صحافی وحید راجپر کے خیال میں 15 سال سے مسلسل اقتدار میں رہ کر پیپلز پارٹی کو بھی حکومت میں رہنے کی چالیں اور سسٹم کی خوب سمجھ آ چکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مخالفین یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ صوبے میں انتخابی سرگرمیوں میں سرکاری مشینری بھی استعمال ہوتی ہے اور پھر پارٹی رہنما بیورو کریسی میں موجود افسران پر بھی اپنا بھرپور اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔

اُن کے بقول سرکاری افسران کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں پھر سے اسی جماعت کی حکومت آنی ہے تو ان کی مخالفت کیوں مول لی جائے۔

وحید راجپر کے مطابق پیپلز پارٹی کو ایک اور ترجیح ہندو ووٹرز سے بھی ملتی ہے۔ صوبے کے مختلف اضلاع جن میں عمر کوٹ، تھرپارکر، کشمور، گھوٹکی وغیرہ شامل ہیں، وہاں ہندو ووٹرز پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت اس بار پیپلز پارٹی کو زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے اور سندھ سے قومی اسمبلی کی 15 ایسی نشستیں ہیں جو پیپلز پارٹی ماضی میں جیتتی چلی آ رہی تھی۔ لیکن وہاں اس بار جماعت کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کے بقول سانگھڑ، لاڑکانہ، حیدرآباد، نوشہرو فیروز اور تھرپارکر کی بعض نشستوں پر پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے۔


'پیپلزپارٹی مخالف سیاسی جماعتیں متحد نہیں ہیں'

وحید راجپر کہتے ہیں کہ صوبے میں اس وقت بھی یہ مخالفت کسی ایک سیاسی جماعت یا اتحاد کے نیچے منظم نظر نہیں آتی۔

اُن کے بقول گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار موجود تو ہیں لیکن کئی حلقوں کے عوام اس الائنس کے امیدواروں کو موزوں نہیں سمجھتے۔ ایسے میں ان کے لیے کوئی اور بہتر متبادل موجود نہ ہونے کی صورت میں ووٹ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہی کو ملتا ہے۔

وحید راجپر کہتے ہیں کہ "شہری علاقوں میں بھی جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کی جانب سے کھڑے کیے گئے امیدواروں کو ان پارٹیوں کے ٹریک ریکارڈ اور انتقامی کارروائیوں کے خوف سے لوگ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔"

الیکٹیبلز کا کردار

اس سوال پر کہ کیا پیپلز پارٹی کی جیت میں الیکٹیبلز کا ہاتھ نہیں؟ وحید راجپر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں انگریز دور سے لے کر آج تک پارٹی کا کردار اہم نہیں رہا بلکہ اصل کردار جاگیرداروں کا رہا ہے۔

اُن کے بقول الیکٹیبلز سیاسی ماحول دیکھ کر انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اور اب واقعی یہ جیالوں کی جماعت کے بجائے پیروں، سرداروں اور وڈیروں کی جماعت بن چکی ہے اور انہیں جیسے اشارہ ملتا ہے وہ شمولیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی واضح مثال گھوٹکی کے جاگیردار مہر خاندان کی ہے جو تین بار پارٹی میں آئے اور گئے۔ اسی طرح ٹھٹھہ کے شیرازی بھی دو بار پارٹی چھوڑ کر دوبارہ پیپلز پارٹی میں آ چکے ہیں۔

'پیپلز پارٹی کو اب بھی لوگ مقبول نعروں اور نظریے پر ووٹ دیتے ہیں'

لیکن مصنفہ اور سوشل ایکٹویسٹ سعدیہ بلوچ کا خیال ہے کہ سندھ میں دیگر علاقوں کی نسبت سیاسی شعور اور ایکٹوزم پاکستان بننے سے پہلے ہی بلند رہا ہے۔

اُن کے بقول اس میں جی ایم سید سمیت علی گڑھ سے پڑھ کر آنے والے کئی نامی گرامی افراد کا کردار رہا ہے۔ لیکن کم یا بُری کارکردگی کے الزامات اور الیکٹیبلز کی سیاست کرنے کے باوجود، پیپلز پارٹی کی اصل طاقت بھٹو خاندان کا کرشمہ رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ آج بھی سندھ کا ترقی پسند اور پڑھا لکھا طبقہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پھر پارٹی کے نظریات پر ووٹ دیتے ہیں۔

اُن کے بقول سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمتِ عملی کا ہاتھ بھی کارفرما ہے جس نے سابق وزیرِ اعظم اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی پارٹی کو یکجا کیے رکھا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں پانی کے مسئلے پر وفاق میں ایک مضبوط مؤقف اختیار کیے رکھا ہے جسے صوبے میں زندگی اور موت کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بالخصوص مالیاتی وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کو بھی جماعت کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔