امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے حماس، اسرائیل جنگ کے خاتمے اور تنازع کے مجوزہ 'دو ریاستی حل' کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس 'کے مطابق اتوار کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "اب اس 'اسٹیٹس کو' کی طرف واپس نہیں جایا جا سکتا جو چھ اکتوبر کو تھا۔"
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطے میں بھی یہی مؤقف دہرایا تھا۔
امریکہ کے علاوہ چین، بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک بھی تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دے رہے ہیں۔
اسرائیلی اور فلسطینیوں کے تنازع کے دوران ہر مرتبہ 'دو ریاستی حل' کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ آخر مشرقِ وسطیٰ کے اس دیرینہ تنازع کا یہ مجوزہ حل ہے کیا اور اسرائیل اور فلسطینیوں سمیت دنیا اس پر کیا مؤقف رکھتی ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
دو ریاستی حل
پہلی عالمی جنگ تک فلسطین کا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہی سلطنتِ برطانیہ نے 1917 میں اعلانِ بالفور کے ذریعے فلسطینی علاقوں میں یہودی قومی ریاست کے قیام کی تائید کا اعلان کردیا تھا۔ یہودی قوم پرست اس ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان علاقوں کو یہودیوں کا قدیم وطن قرار دیتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطینی علاقے برطانیہ کے کنٹرول میں چلے گئے۔ 1922 میں اس وقت کی بین الاقوامی تنازعات حل کرنے کے لیے قائم کی گئی عالمی تنظیم 'لیگ آف نیشنز' نے فلسطین کو برطانوی انتظامیہ کے حوالے کردیا جسے ’فلسطین مینڈیٹ‘ کا نام دیا گیا۔
برطانیہ کی منظوری کے بعد یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطینی علاقوں کی جانب نقل مکانی شروع کردی جس کے ردِعمل میں یہاں صدیوں سے رہنے والے عربوں نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ عربوں کی مزاحمت 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔ اس دوران برطانوی فوج اور یہودی ملیشیا سے عربوں کا تصادم جاری رہا۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ نے 1947 میں فلسطینی علاقوں کو دو حصوں یعنی یہودی اور عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی۔ ۔ اس مجوزہ منصوبے میں تاریخی شہر یروشلم کا انتظام اقوامِ متحدہ کو دینے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہودی کمیونٹی کی جانب سے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہونے پر یہ منصوبہ تسلیم کر لیا گیا۔ تاہم عربوں نے زمین اور وسائل کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کیا اور مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی اُردن، مصر، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔
مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، لیکن فلسطینی ریاست قائم نہیں کی گئی۔ اسرائیل نے جنگ میں اقوامِ متحدہ کے مجوزہ علاقوں سے زیادہ رقبے کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اقوامِ متحدہ کی مجوزہ فلسطینی ریاست میں مغربی کنارے، یروشلم اور غزہ کے علاقے شامل تھے۔ لیکن جنگ کے بعد مغربی کنارہ اردن کے پاس چلا گیا اور غزہ پر مصر کا کنٹرول قائم ہوگیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل کے کنٹرول میں آنے والے علاقوں سے بڑی تعداد میں عربوں کو بے دخل کردیا گیا جو بڑی تعداد میں غزہ اور پڑوسی ممالک میں نقل مکانی کر گئے۔ فلسطینی اپنے علاقوں سے بے دخلی کو ’نقبہ‘ یا تباہی کہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لگ بھگ ایک برس تک جاری رہنے والی جنگ میں فلسطینیوں کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا اور لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ یوں دو ریاستی حل پر عمل درآمد کا خواب اُدھورا رہ گیا۔
بعدازاں 1967 میں چھ روز تک جاری رہنے والی عرب، اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس طرح جنگ کے بعد مجوزہ فلسطینی ریاست کے تقریباً تمام علاقے اسرائیل کے کنٹرول میں چلے گئے۔ اس جنگ کے بعد بھی لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔
اس دوران اقوامِ متحدہ نے علیحدہ فسلطینی ریاست کے قیام، فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور پناہ گزینوں کی واپسی کی حمایت جاری رکھی۔ 1974 میں اقوامِ متحدہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کرنے والی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کو فلسطینیوں کانمائندہ تسلیم کرلیا۔
علیحدہ ریاست کا قیام نہ ہونے کی وجہ سے فلسطینی علاقوں میں بے چینی بڑھتی گئی اور 1987 میں فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا جسے پہلا انتفاضہ کہا جاتا ہے۔
اوسلو اکارڈ
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رہیں جن میں 1993 میں ایک اہم پیش رفت ہوئی۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں اسرائیلی وزیرِ اعظم اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے 'اوسلو اکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اس مسئلے کے دو ریاستی حل کی اُمیدیں پھر روشن ہوئیں۔
اوسلو اکارڈز کے مجوزہ منصوبے کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کے لیے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاقے تجویز کیے گئے۔ معاہدے کے تحت اسرائیل نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فلسطینیوں کی نمائندہ پارٹی جب کہ پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا۔
اسی معاہدے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ کے لیے ایک انتظامی فلسطینی اتھارٹی بنا دی گئی۔ تاہم امریکی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے کے باوجود دو ریاستی حل کی جانب پیش قدمی نہ ہو سکی اور مختلف ادوار میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور اسرائیل کی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیچیدگیاں
امریکی تھنک ٹینک 'کونسل آن فارن ریلیشنز' کے مطابق تنازع کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کی راہ میں کئی پیچیدگیاں آڑے آتی رہی ہیں۔
مجوزہ منصوبے کے مطابق سرحدی حد بندی اور ایک دوسرے کے علاقے میں رہنے والے اسرائیلی اور فلسطینی باشندوں کی قانونی حیثیت کے معاملے پر بھی ابہام پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر نے بھی کسی تصفیے پر فریقین کے اتفاق کو مزید مشکل بنا دیا۔
اسرائیل پورے یروشلم پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے خواہاں ہیں۔
اسرائیلی اور فلسطینیوں کی موجودہ قیادت کا مؤقف
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو امن مذاکرات شروع کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
اسرائیل میں دائیں بازو کی بعض جماعتیں بھی اس تنازع کے دو ریاستی حل کی مخالف ہیں۔ ان میں اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ بھی شامل ہیں جو مغربی کنارے کو قبضے میں لے کر 'دو ریاستی حل' کو مکمل طور پر خیرباد کہنے کے حق میں ہیں۔
دوسری جانب مغربی کنارے میں کنٹرول رکھنے والے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری پر بھی اس حوالے سے زور دیتے رہے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا گیا گروپ حماس اسرائیل کے قیام کو ہی غیر قانونی سمجھتا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں، لیکن اس تنازع کی پیچیدگی اور تشدد کے واقعات کے باعث دو ریاستی حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔