جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے لیے بھارت کی جانب سے آئین میں ترمیم کیے جانے کے بعد خطّے کی کشیدہ صورتِ حال پر مشاورت کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس جمعے کو طلب کیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس سلامتی کونسل کے مستقل رُکن چین کی درخواست پر ہو رہا ہے جب کہ پاکستان نے بھارتی حکومت کے اقدام پر بدھ کو ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست دی تھی۔
تجزیہ کار کشمیر کی کشیدہ صورتِ حال پر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
'کشمیر پر بحث ہونا ہی پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے'
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں متوقع قرارداد کی منظوری سے متعلق تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کشمیر سے متعلق قرارداد اقوامِ متحدہ میں منظور ہو سکے گی یا نہیں۔ سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد 15 ہے۔ جن میں سے پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار ہے جب کہ ان میں سے کوئی بھی ملک قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا ہے کہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہونا ہی پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
'ان حالات میں اقوامِ متحدہ نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے'
سلامتی کونسل کے اجلاس میں تنازع کشمیر پر قرارداد کی متوقع منظوری سے متعلق اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ قرارداد بالکل منظور ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج کل جو حالات ہیں اور جس طرح کا برتاؤ بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے اور جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے، ان حالات میں اقوامِ متحدہ کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر منیر اکرم نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی 'متنازع' حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
انہوں نے یہ باور کرایا کہ بھارت کا یہ اقدام سلامتی کونسل کی کشمیر کو متنازع قرار دینے کی قراردادوں کو نہیں بدل سکتا۔
منیر اکرم کا مزید کہنا تھا کہ جب تک پوری دنیا جاگے گی نہیں اور بھارت پر پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی تب تک بھارت ان قراردادوں پر عمل نہیں کرے گا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب نے کہا کہ ان قراردادوں پر عمل درآمد آخر کار کشمیری عوام ہی کرا سکیں گے کیوں کہ وہ اب جاگ گئے ہیں۔
'بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رُکن بننا چاہتا ہے'
سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بھارت پر پابندیاں لگائے جانے سے متعلق ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت پر پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں تو قدغنیں لگانے کا سوچنا ضرور چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنے۔ اس لیے سلامتی کونسل کو سوچنا یہ چاہیے کہ وہ ملک جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھے اور کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر کے دنیا سے کہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، وہ کیسے مستقل رکن بن سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کی طرف سے بھارت پر پابندیاں لگائے جانے کے سوال پر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ قراردادوں پر عمل نہ کرنے پر دیگر ممالک کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے اور اگر بات بڑھ جائے تو معاشی پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر ملک کو دیکھنا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنا ہے تو کوئی معقول پوزیشن لینا ہو گی۔ ناجائز اقدامات جو ملک کر رہا ہوتا ہے اسے اشارتاً ہی سمجھ آ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھی ایسے اقدامات سے کچھ سمجھ آ جائے۔
'سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نفاذ عملی طور پر نہیں کیا جا رہا'
سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے سے متعلق سوال پر منیر اکرم کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے قراردادوں کی خلاف ورزی کئی سال سے کی جا رہی ہے جب کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نفاذ عملی طور پر نہیں کیا جا رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ اگر ایک ملک کہتا ہے کہ اس نے اِن قراردادوں پر عمل نہیں کرنا تو اس کے خلاف صرف ایکشن ہی لیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے منیر اکرم نے مزید کہا کہ بھارت ایک بڑی طاقت ہے۔ اس نے آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں رکھی ہوئی ہے۔ بھارت کے خلاف ممکنہ ایکشن پر جنگ ہی ہو سکتی ہے جو پاکستان نہیں کرنا نہیں چاہتا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس تنازع کو امن کے ساتھ حل کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تو عالمی برادری ذمہ دار ہو گی۔ کیوں کہ جنگیں روکنا ان کا کام تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔
وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، اقوامِ متحدہ کے سامنے مسئلہ کشمیر اُٹھا رہا ہے اور اب یہ اقوام متحدہ پر ہے کہ وہ کشمیر سے متعلق قراردادوں پر عمل کیسے کرواتا ہے۔
عمران خان نے اقوامِ متحدہ کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیری اب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔