تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عرب لیگ کا شام کو 12 سال تک الگ رکھنے کے بعد دوبارہ تنطیم میں شامل کرنے کا فیصلہ دمشق کے لیے ایک اہم علامتی فتح تھی، جو کہ بڑی سطح پر علاقے میں تنظیم نو کا حصہ اور وہاں امریکہ کے زوال پذیر کردار کا اشارہ ہے۔
لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ عمل فوری طور پر تعمیر نو کے لیے وہ ڈالر نہ لا سکے، جس کی شامی صدر بشارالااسد امید کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ اس س پیش رفت سے وہ تبدیلیاں آ سکیں جو شام کے پڑوسی چاہتے ہیں، جیسے کہ پناہ گزینوں کی واپسی پر معاہدہ اور منشیات کی اسمگلنگ پر کنٹرول کے اقدامات۔
شام اس کے باوجود عرب ملکوں کی صفوں میں واپس آ رہا ہے جب کہ اس کی اس شورش کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں جو خانہ جنگی میں بدل چکی ہے اور جو اب اپنے 13 ویں سال میں ہے۔
طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہونے والے اس تصادم میں مارچ 2011 سے اب تک تقریباً 15 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی جنگ سے پہلے کی دو کروڑ 30 لاکھ آبادی کا نصف حصہ بے گھر ہو چکا ہےاور ثالثی کی متعدد کوششیں ناکام رہی ہیں۔
لیگ نے اتوار کو قاہرہ میں ایک بند کمرے کے اجلاس میں شام کو دوبارہ تنظیم میں شامل کرنے کی منظوری دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اسد 19 مئی کو جدہ، سعودی عرب میں لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں، جس سے ان کی ان کوششوں کو مزید تقویت ملے گی جو وہ اس تنہائی کی صورت حال سے نکلنے کے لیے کر رہے تھے۔
عرب لیگ ایک 22 رکنی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1945 میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور تنازعات کے حل کے لیے رکھی گئی تھی۔ لیکن اسے بڑے پیمانے پر ایک کمزور اور غیر موثر تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
SEE ALSO: سعودی عرب کی شام کے صدر بشار الاسد کو عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوتاس تنظیم نے 2011 میں شام کی رکنیت اس وقت معطل کر دی تھی جب اسد حکومت نے اپنے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کو بے دردی سے کچلنے کے اقدامات کیے۔ یہ شورش تیزی سے ایک وحشیانہ خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔ قطر، سعودی عرب اور کئی دوسرے عرب ممالک نے اسد کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے مسلح اپوزیشن گروپوں کی مدد اورحمایت کی، جب کہ اسد کو روس، ایران اور تہران سے وابستہ ملیشیاؤں کی پشت پناہی حاصل رہی۔
جنگ میں برسوں کے تعطل کے بعد، اسد حکومت کا ملک کے بیشتر حصوں، خاص طور پر اہم شہروں پر کنٹرول ہے۔ اپوزیشن گروپس یا امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز شمالی اور مشرقی شام کے بیشتر حصوں پر قابض ہیں - اور صورت حال میں جلد ہی کسی تبدیلی کا امکان بھی نہیں ہے۔ یہ بات برسوں سے واضح ہو چکی ہے کہ اپوزیشن کے لیے بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
عرب حکومتیں جو شاید کبھی اس نتیجے کی امید رکھتی تھیں اب فیصلہ کر رہی ہیں کہ اسے اپنی صفوں میں لانا ہی بہتر ہے۔
سعودی ماہر سیاسیات ہشام الغانم کہتے ہیں۔ ’’ ہمیں نہیں معلوم کہ تنازعہ کب ختم ہوگا، اور حکومت کا بائیکاٹ کرنے سے بھی کوئی حل نہیں نکلا‘‘۔
حالیہ برسوں میں، کئی عرب ممالک سفارتی تعلقات کی بحالی کی طرف بڑھے ہیں۔
پھر شام اور ترکی میں 6 فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے نے بھی شام کے لیے ہمدردی پیدا کرتے ہوئے باہمی میل جول کے عمل کو تیز کیا۔
انسانی بحران کے حوالے سے اسد تک پہنچنا تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک کم متنازع طریقہ تھا۔
سعودی عرب اور علاقائی حریف ایران کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کے لیے چینی ثالثی سے ہونے والا معاہدہ بھی اس سلسلے میں ایک محرک بنا۔
سعودی عرب نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کے عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔بعض عرب ملکوں نے عرب لیگ میں شام کی واپسی کی حمایت نہیں کی،لیکن انہوں نے اس کی راہ بھی نہیں روکی۔
SEE ALSO: عرب لیگ میں شام کی واپسی مناسب نہیں ہے: امریکہجو عرب ممالک شام کی واپسی کی حمایت نہیں کر رہے ، ان کا اعترض یہ ہے کہ اسد نے شام کے تنازع کو حل کرنے کے لیے کسی سیاسی معاہدے کے لیے کوئی رعایت نہیں دی۔
امریکی اور یورپی پابندیاں ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں عرب ممالک کو تعمیر نو میں اہم سرمایہ کاری سے باز رکھیں گی۔
حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں بہت سے شامی باشندوں کو امید ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ وسیع تر تجارت میں فائدہ ہو گا جس سے ایک تباہ کن معاشی بحران کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
سعودی ماہر سیاسیات الغانم کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ’’ اگر وہاں استحکام ہوتا ہے تو میں باور کرتا ہوں کہ شام کے لیے خلیجی سرمایہ کاری آ سکتی ہے اور اس کے ساتھ تجارت ہو سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے توجہ دلائی کہ سعودی شامی تعلقات شامی تنازعے سے پہلے ہی کشیدہ تھے، لہٰذا اعتماد سازی میں وقت لگے گا۔
اتوار کے اجلاس کے بعد عرب لیگ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب لیگ میں شام کی واپسی کے مزید فوائد مستحکم ہونے کا انحصار تنازع کے سیاسی حل کی طرف بڑھنے، منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے اور پناہ گزینوں کی واپسی میں سہولت فراہم کرنے پر ہوگا۔ خلیجی ممالک نے بھی شام میں ایرانی اثرورسوخ کو روکنے کے لیے دمشق پر زور دیا ہے۔
بیروت میں قائم کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کی ڈائریکٹر مہا یحییٰ نے کہا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ شام عرب ممالک کے مطالبات کو پورا کرے گا۔
انہوں نے کہا میں نہیں سمجھتی کہ اس اقدام سے شام کے لیے حمایت کے دروازے کھل جائیں گے۔
SEE ALSO: سوڈان میں متحارب جنرلوں کے سعودی عرب میں مذاکرات، خرطوم میں لڑائی جاریشام پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی
ادھرامریکی قانون سازوں کے ایک دو جماعتی گروپ نے جمعرات کو ایک بل پیش کیا جس کا مقصد امریکی حکومت کو بشار الاسد کو شام کے صدر کے طور پر تسلیم کرنے سے روکنا اور ایسے دوسرے ملکوں کے لیے انتباہ کے طور پر جو اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا رہے ہیں، واشنگٹن کی تعزیرات عائد کرنے کی صلاحیت میں ضافہ کرنا ہے۔
یہ بل، جس کی اطلاع سب سے پہلے رائٹرز نے دی ، امریکی وفاقی حکومت کو شام میں اسد کی قیادت والی کسی بھی حکومت کو تسلیم کرنے یا تعلقات معمول پر لانے سے روکے گا، جس پر امریکہ کی پابندیان عائد ہیں ، اور یہ اس امریکی ایکٹ میں توسیع ہو گی، جس کے تحت 2020 میں شام پرسخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
امریکہ نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا اور اس کی پابندیاں مکمل طور پر نافذ العمل رہیں گی۔
(اس رپورٹ کے مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)