راز کے افشا کا عمل کیا ہے؟
عام طور پر ’لیک‘ صیغہٴ راز کی معلومات کا رضاکارانہ افشا خیال کیا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات شناخت ظاہر نہ کردہ ذریعے سے فراہم کی جاتی ہیں، جن کا مقصد یہ اطلاع عام لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔
’اوپن اسکول آف جرنلزم‘ کے مطابق، جب کوئی فرد ذرائع ابلاغ کو معلومات کا انکشاف کرتا ہے، تو اُسے ’نیوز لیک‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی اطلاعات کوئی بھی لیک کر سکتا ہے، جِن کا تعلق سرکاری یا کسی کاروباری ادارے سے ہو سکتا ہے۔
اسکول کے الفاظ میں ’’لوگوں کے پاس کسی اطلاع کے انکشاف کی ہر طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں، جسے ظاہر کرنے کا اُنھیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا، جس میں جاننے کے عام حق کے بارے میں تشویش کا عنصر شامل ہوتا ہے، جس کے صلے میں کوئی مالی انعام حاصل ہو سکتا ہے یا کسی فرد یا گروپ کو الجھن میں ڈالنا مقصود ہو سکتا ہے‘‘۔
کبھی کبھار سرکاری کارکنان اطلاع لیک کرتے ہیں، تاکہ کسی آنے والے معاملے کا انتباہ جاری کیا جا سکے یا ’’پانی کی سطح کا اندازہ ہو سکے یا کسی معاملے کی جوڑ توڑ کا اندازہ ہو‘‘۔
سرکاری یا کاروباری قسم کے راز افشا کرنے والے کبھی کبھار اطلاع فاش کرتے ہیں تاکہ ’’ایسی چیزوں سے پردہ اٹھایا جا سکے جسے وہ غلط یا عام آدمی کے مفاد میں خیال نہیں کرتے‘‘۔
’راز افشا کرنے والے‘ اور ’وِسل بلوؤر‘ میں کیا فرق ہے؟
ایک ’وسل بلوؤر‘ اور ’لیکر‘ کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر یا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے سامعین و ناظرین کو اطلاع کا انکشاف کرسکیں، جس میں ذرائع ابلاغ شامل ہے، اگر ایسی معلومات ’کلاسی فائیڈ‘ نہیں، یا اس کا انکشاف کسی قانون کے تحت ممنوع نہیں قرار دیا گیا، جیسا کہ ’یونیفارم ٹریڈ سیکریٹ ایکٹ‘ کے تحت۔ یہ بات ’گورنمنٹ اکاؤنٹ ابیلٹی پروجیکٹ (جی اے پی)‘ میں بتائی گئی ہے۔
اگر اطلاع صیغہٴ راز کے درجے کی ہے، تو اِس کا افشا محفوظ قرار دیے گئے ’چینلز‘ کے ذریعے ہونا چاہیئے۔
ایسی صورت حال میں، ’لیکر‘ اور ’وِسل بلوؤر‘ میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا۔
فرق تب ہوتا ہے جب ’لیکر‘ وفاقی قانون کے تحت کسی ناجائز معاملے کا انکشاف کرے، یا پھر ذرائع ابلاغ کو ’کلاسی فائیڈ‘ درجے کی کسی اطلاع کو افشا کر دے۔
ساتھ ہی، یہ فرق تب بھی نظروں میں کٹھکتا ہے جب ایک ’لیکر‘ ایسی اطلاع عام کرے جو سیاسی وجوہ کی بنا پر’سیاسی گپ شپ‘ کے زمرے میں آتی ہو، اور جس سے کسی سرکاری غلط کاری کا ثبوت میسر نہ آتا ہو۔