صدر ٹرمپ نے یوکرین کی امداد 'کچھ دو کچھ لو' کی بنیاد پر روکی، وائٹ ہاؤس کا اعتراف

(فائل فوٹو)

امریکہ کے صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کی 391 ملین ڈالر کی امداد 'کچھ دو اور کچھ لو' کی بنیاد پر روکی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چیف آف اسٹاف اور صدر ٹرمپ کے مشیر مک ملوانی نے جمعرات کو صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس کی طرف سے یوکرین کے لیے منظور شدہ امداد صدر ٹرمپ کے 'تحفظات' کی بنا پر روکی گئی تھی۔

صحافیوں سے بات چیت کے آغاز پر صدر ٹرمپ کے مشیر نے کہا کہ "ان کے پاس آج بڑی خبر ہے اور وہ یہ کہ خارجہ پالیسی پر سیاسی اثر و رسوخ دیکھا جا سکتا ہے۔"

تاہم، بعدازاں وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں انہوں نے اپنے ہی اس بیان کی تردید کر دی۔

پریس بریفنگ کے دوران صحافی نے صدر ٹرمپ کے مشیر سے سوال کیا کہ ’کچھ دو اور کچھ لو‘ سے کیا مراد ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ ’’خارجہ پالیسی میں ہم ایسا کرتے رہتے ہیں‘‘۔

مک ملوانی کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ڈیموکریٹ کی طرف سے مواخذے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔

امریکی سفارت کار برائے یورپی یونین گورڈن سونڈلینڈ نے مواخذے کی کارروائی کی تحقیقات میں اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف شروع ہونے والی کارروائی کے بعد انہوں نے سینئر حکام کو کہا تھا کہ وہ براہ راست اس حوالے سے ان کے وکیل سے بات کریں۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے خدشات جنم لیتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کو صدر ایک عام شہری سے چلا رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے رواں سال 25 جولائی کو یوکرین کے ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کو فون کر کے اُنہیں کہا تھا کہ وہ سابق نائب صدر اور 2020 کے صدارتی انتخاب میں ممکنہ حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کریں۔ عدم تعاون پر انہوں نے یوکرین کی امداد روک لی تھی۔

اس بات کا انکشاف ایک مخبر نے کیا جس کے بعد ڈیموکریٹ کی ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی نے صدارتی دفتر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چیف آف اسٹاف مک ملوانی نے کہا کہ صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ یوکرین ایک بدعنوان ملک ہے اور ایسے ملک کو صرف اس بنیاد پر غیرملکی امداد دی جائے کہ وہ اپنے ملک کے مشرقی حصے میں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے؟

صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے ڈیموکریٹ نمائندے جیرالڈ کنولی کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے مواخذے کی کارروائی پر ایک نیا حربہ اختیار کر لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حقائق کو بدنام کرنا اور چیزوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنا کہ 'تو کیا ہوا؟‘

انہوں نے کہا کہ 'تو کیا ہوا' سے صدر کا مواخذہ ہوسکتا ہے کیوں کہ انہوں نے صدارتی دفتر کی بے توقیری کی۔ اُن کے بقول، انہوں نے آخری مرتبہ پڑھا تھا کہ بھتہ خوری اب بھی جرم ہے۔