امریکی ریاست جنوبی کیرولائنا میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کو ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار کا یہ اقدام ایک کیمرہ پر ریکارڈ ہو رہا تھا۔
پچاس سالہ والٹر اسکاٹ کو گولی مارنے کا واقعہ گزشتہ ہفتے نارتھ چیسٹرٹن شہر میں ہوا جب پولیس اہلکار مائیکل سلیجر نے اسے ٹوٹی ہوئی بریک لائٹ کے ساتھ گاڑی چلانے پر روکا۔
ایک راہگیر نے اپنے موبائل فون پر اس کی وڈیو بنائی جس میں مائیکل سلیجر کو دور بھاگتے ہوئے اسکاٹ پر کئی مرتبہ گولی چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ آخری گولی چلنے کے بعد اسکاٹ زمیں پر گر گیا۔ سلیجر اس کے پاس گیا اور اسے ہتھکڑی لگائی اور پھر واپس اس جگہ آ گیا جہاں اس نے گولی چلائی تھی۔ اس کے بعد اس نے زمیں سے کوئی چیز اٹھائی، چل کر اسکاٹ کی لاش کے پاس گیا اور اس چیز کو لاش کے قریب گرا دیا۔
سلیجر نے پہلے یہ کہا تھا کہ اس نے اسکاٹ پر اس وقت گولی چلائی جب اُس نے ہاتھا پائی کے دوران اس کی الیکٹرانک اسٹن گن چھین لی تھی۔
جس گواہ نے یہ وڈیو بنائی تھی اس نے اسے اسکاٹ کے خاندان کے حوالے کر دیا۔ اس خاندان کے وکیل نے یہ وڈیو ’نیو یارک ٹائمز‘ اخبار کو دے دی جس نے منگل کو اسے اپنی ویب سائٹ پر لگا دیا۔
اسکاٹ خاندان کے وکیل کرس اسٹیورٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’اگر یہ وڈیو نہ ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟ اگر اس واقعے کا کوئی گواہ نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ پھر ایسا نہ ہوتا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ابتدائی خبروں میں ایک بالکل مختلف بات کہی گئی تھی۔ پولیس اہلکار نے یہ کہا تھا کہ اسکاٹ نے اس پر حملہ کیا تھا اور اس کی اسٹن گن چھین کر اسے اس پر چلانے کی کوشش کی تھی، مگر کوئی اسے دیکھ رہا تھا۔‘‘
جنوبی کیرولائنا ریاست میں جرائم کے تحقیقاتی ادارے نے گولی چلانے کے اس واقعے پر تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ امریکی محکمۂ انصاف اور ’ایف بی آئی‘ نے بھی اپنی اپنی تفتیش شروع کی ہے۔
پولیس کا غیر مسلح سیاہ فام مردوں پر گولی چلا کر ہلاک کرنے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ریاست میسوری کے شہر فرگوسن، اوہائیو کے شہر کلیولینڈ، اور نیویارک شہر میں بھی ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
ان واقعات کے بعد پورے امریکہ میں اقلیتی آبادیوں میں پولیس کے جارحانہ ہتھکنڈوں کے خلاف پڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔