دائمی امراض، سالانہ تین کروڑ 80 لاکھ افراد لقمہٴاجل

ماہرین کے مطابق، اندیشہ ہے کہ 2020ء تک دائمی امراض کے ہاتھوں سب سے زیادہ اموات افریقہ میں ہوں گی۔ طبی ماہرین نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان اموات کو روکنے یا ان امراض سے بچاؤ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے

اقوام ِمتحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تین کروڑ 80 لاکھ افراد دائمی امراض کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان امراض کا علاج ممکن ہے۔

عالمی ادارہٴصحت کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ہلاک ہونے والے مریضوں کی نصف تعداد یعنی تقریباً 16 ملین افراد 70 سال کی عمر سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔

دائمی امراض کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مریضوں کی اکثریت ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔

عالمی ادارہٴصحت کا کہنا ہے کہ دائمی امراض میں جس میں دل کے امراض، سرطان، ذیابیطس اور پھیپھڑوں کے امراض شامل ہیں، 2000ء کے بعد سے عالمی سطح پر اضافہ درج کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر جنوبی مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل میں ان بیماریوں میں زیادہ نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق، 2020ء تک ان امراض کے ہاتھوں سب سے زیادہ اموات افریقہ میں ہوں گی۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان اموات کو روکنے یا ان امراض سے بچاؤ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے۔

عالمی ادارہٴصحت کی ڈائریکٹر جنرل، مارگریٹ چین کا کہنا ہے کہ بچپن میں موٹاپا اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان میں بڑے ہو کر ان امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مارگریٹ چین کا کہنا ہے کہ بچپن میں موٹاپے سے بچ کر دائمی امراض سے بچنے کی تدبیر کو تقویت بخشی جاسکتی ہے۔

عالمی ادارہٴ صحت کی اس رپورٹ میں ملک بہ ملک دائمی امراض اور اس سے درپیش مسائل کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، حکومتیں اس بات سے واقف ہیں کہ انہیں یہ مسئلہ درپیش ہے۔

بہت سے ممالک میں اس بات پر بھی توجہ دی جا رہی ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کے باعث انسان ان مسائل میں مبتلا ہوتا ہے، جیسا کہ کثرت ِشراب نوشی، تمباکو کا بڑھتا استعمال، غیر صحت بخش غذا کا استعمال اور ورزش میں کمی۔