افغان طالبان نے لگ بھگ 20 برس بعد ایک بار پھر کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد جہاں طالبان کے پچھلے دورِ حکومت میں اُن کے طرزِ حکمرانی پر بحث زور و شور سے جاری ہے وہیں طالبان کا ماضی اور موجودہ حالات میں افغانستان کا مستقبل بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ طالبان تحریک کب اور کیسے شروع ہوئی اور افغانستان کے سیاسی منظر نامے پر گزشتہ تین دہائیوں سے متحرک اس گروہ کو منظم کرنے والے کون تھے اور اُن کے کیا اغراض و مقاصد تھے.
تحریک اسلامی طالبان کی بنیاد ملا محمد عمر نے 1994 میں رکھی تھی۔ روس کے خلاف جہاد میں برسر پیکار رہنے والے چند طلبہ نے افغانستان کے حالات سے تنگ آ کر یہ تنظیم قائم کی تھی۔ جس کے بنیادی مقاصد میں افغانستان میں امن و امان کا قیام اور اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔
افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق طالبان میں شامل رہنماؤں نے بھی روس کے خلاف جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس وقت بھی انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت برقرار رکھی تھی۔
طالبان مختلف جہادی تنظیموں میں شامل رہے تاہم ان کی اپنی الگ شناخت بھی تھی۔
طالبان نے افغانستان اور خطے میں نظام شریعت نافذ کرنے کے منشور کے ساتھ قندھار سے اپنی تنظیم کا آغاز کیا۔ طالبان کے ابتداً یہ اعتراضات تھے کہ افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد مجاہدین آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ملک میں امن و امان ناپید ہے اور شریعت کے نفاذ کے لیے بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق ملا عمر کے پاس ابتدا میں صرف 33 لوگ تھے۔ قندھار کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں یہ تحریک شروع ہوئی جہاں کے عوام میں بھی اسے پذیرائی ملی۔
ان کے بقول افغانستان کے عوام روس کے جانے کے باوجود مجاہدین کے آپس کے جھگڑوں سے اُکتا چکے تھے۔ افغانستان میں ذرائع آمدورفت محدود تھی اور لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں دشواریاں پیش آتی تھیں۔
طالبان کی فتوحات اور دور اقتدار
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے عوام کی جانب سے ابتدا میں ملنے والی حمایت کے باعث طالبان تیزی سے فتوحات حاصل کرتے رہے۔ بہت سے مجاہدین کمانڈر یا تو طالبان میں شامل ہو گئے یا طالبان کے ساتھ مقابلہ کرنے سے گریز کرتے رہے۔
طالبان نے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ قائم کرنے کے بعد 1996 میں کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد تقریباً نوے فی صد افغانستان طالبان کے زیر اثر آ گیا۔
طالبان حکومت کے سخت قوانین
طالبان نے اقتدار میں آتے ہی افغانستان میں سخت قوانین نافذ کر دیے اور ملک میں اسلامی قوانین پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا، نماز روزے اور خواتین پر پردے کی پابندیوں کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی سطح پر انتظامات کیے گئے۔ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔
محصولات ختم کیے گئے اور اس کے علاوہ مجموعی طور پر طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار کے بارے میں بعض ماہرین کی رائے میں انصاف کی بروقت فراہمی اور امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے پر افغانستان کے عوام نے سکھ کا سانس بھی لیا۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ 1996 سے لے کر 2001 تک طالبان نے ایک انتہا پسندانہ، مذہبی ریاست کا تصور اُجاگر کیا۔ امریکہ نے اُن کی حکومت ختم تو کر دی لیکن طالبان دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے سرگرم رہے۔
غیر ملکی جہادیوں کو تحفظ
طالبان پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہے کہ اُنہوں نے افغانستان میں دیگر ممالک کو مطلوب افراد کو پناہ اور تحفظ دیا جس پر دنیا بھر نے اُن پر تنقید کی۔ طالبان نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن اور اُن کے ساتھیوں کو بھی افغانستان میں پناہ دی۔ جنہیں سوڈان نے بے دخل کر دیا تھا۔
طالبان کے اقدامات کے باعث نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے طالبان سے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا۔ اس سے قبل 1998 میں امریکہ کے بحری بیڑے سے افغانستان میں میزائل بھی داغے گئے۔ امریکی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ میزائل اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر داغے گئے تھے۔
طالبان کے خلاف مزاحمت
اقتدار میں آنے کے باوجود طالبان کو شمالی اتحاد کی جانب سے مزاحمت کا سامنا رہا۔ جہادی رہنما احمد شاہ مسعود اور عبدالرشید دوستم کی زیرِ قیادت شمالی اتحاد کے ساتھ طالبان کی مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ماہرین کے مطابق شمالی اتحاد کو امریکہ، ایران، روس، ترکی اور بھارت کی بھی حمایت حاصل تھی جو طالبان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔
طالبان کے قیام میں پاکستان کا کردار
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آغاز میں طالبان کی حمایت نہیں کی تھی۔ یہ افغانستان کے اندر سے جنم لینے والی مجاہدین کی ایک تحریک تھی۔ طالبان میں شامل بہت سے جنگجوؤں نے پاکستان کے مدارس سے تعلیم حاصل کی تھی۔ یہی وجہ تھی ان کے پاکستان میں گہرے روابط اور رشتہ داریاں بھی قائم تھیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق طالبان تحریک کے دوران بہت سے افراد نے پاکستان سے افغانستان جا کر بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی جس بنیاد پر یہ تاثر دیا گیا کہ طالبان کی بنیاد پاکستان نے رکھی تھی۔ ان کے بقول جب طالبان مضبوط ہوئے اور کابل میں انہوں نے حکومت قائم کی تو پھر پاکستان نے بھی ان کی حمایت کر دی۔
رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان نے طالبان میں دیگر دھڑوں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات برقرار رکھے تاہم طالبان حکومت کے ساتھ اس کے خصوصی تعلقات قائم ہو گئے۔
البتہ سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ طالبان کبھی بھی پاکستان کے ماتحت نہیں رہے۔ اُن کے بقول جو امریکہ کے ساتھ لڑ سکتے ہیں، وہ پاکستان کے ماتحت کیسے ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ایسا ضرور تھا کہ طالبان کی قیادت میں شامل بہت سے رہنماؤں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی اور اُن کے اہل خانہ بھی یہاں مقیم تھے۔ لہذٰا پاکستان کا کچھ اثر و رُسوخ تو ضرور تھا۔ لیکن یہ کہنا کہ طالبان کی فیصلہ سازی میں پاکستان کا کوئی کردار تھا، یہ تاثر درست نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہو گی۔ کیوں کہ امریکہ سمیت بہت سے مغربی ممالک یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر طالبان نے ملک میں اقتدار کے حوالے سے اتفاقِ رائے پیدا نہ کیا تو اُنہیں عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہو گا۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تمام شراکت داروں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
سہیل شاہین نے اتوار کو خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو میں کہا تھا کہ معاملات طے ہونے کے بعد نئی حکومت سے متعلق اعلان کیا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں طالبان کو ملک کے اندر حمایت حاصل ہے وہیں افغان معاشرے کا ایک بڑا حصہ اُن کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کو پسند نہیں کرتا۔ لہذٰا ایسی صورتِ حال میں افغانستان کے سیاسی مستقبل اور اتفاقِ رائے والی حکومت کی راہ میں کئی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔