عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ کرونا وائرس کو سیاسی نہ بنایا جائے۔ وبائی مرض کو سیاسی بنانے سے معاملات الجھ جائیں گے وبائی صورتِ حال مزید خراب ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کی ماتحت ایجنسی کی معمول کی بریفنگ میں ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ او ٹیڈروس نے کہا ہے کہ وبائی مرض شروع ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے سے سب سے زیادہ کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ شمالی نصف کرہ کے بیشتر ممالک میں اسپتالوں میں آنے والے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں بھی متاثرہ افراد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے متعدد رہنماؤں نے حالیہ دنوں میں اپنے حالات کا جائزہ لینے کے بعد وبائی مرض کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ جیسے لاک ڈاؤن، گھر سے تعلیم کا حصول یا کام کرنا شامل ہے۔
ان کے بقول اس کے علاوہ بھی انہوں نے مرض کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارۂ صحت کو ادراک ہے کہ یہ پابندیاں کس حد تک لوگوں کے لیے ذہنی اور جسمانی مشکلات و تھکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن حکومتوں اور شہریوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ وبا کے خاتمے کا کوئی جادوئی حل موجود نہیں ہے۔ وبا کے کنٹرول کے لیے رہنماؤں اور شہریوں کو ہر سطح پر سخت محنت کرنی ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائنس ہمیں اس وائرس سے متعلق حقیقتوں سے آگاہ کرتی ہے۔ جیسے یہ مرض کیسے پھیلتا ہے۔ اس پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے یا اس سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور قیمتی جانوں کا نقصان کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔
ٹیڈروس نے کہا کہ سائنس کے اصولوں کی پیروی کرنے والے ممالک نے وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کو کم سے کم کر دیا ہے۔ لیکن جہاں قومی سطح پر سیاسی تقسیم ہے اور سائنس اور صحت کے ماہرین کو اہمیت نہیں دی گئی وہاں تقسیم پیدا ہوئی جس سے اموات میں اضافہ ہوا۔