امریکہ میں پیر کو 'کولمبس ڈے' اور آبائی امریکی باشندوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے جس کا آغاز 1971 میں کیا گیا تھا۔
کولمبس ڈے سن 1492 کے اس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں اسپین کے تین بحری جہاز ایک جزیرے پر لنگر انداز ہوئے جنہیں اب 'بہاماز' کہا جاتا ہے۔
امریکہ میں ہر سال نومبر کے دوسرے پیر کو یہ دن منایا جاتا ہے جس کی مناسبت 12 اکتوبر 1492 کے اُس دن سے ہے، جب اٹلی کے مہم جو کرسٹوفر کولمبس نے اس خطے میں قدم رکھا تھا جسے دنیا اب امریکہ کے نام سے جانتی ہے۔
کئی تاریخ دان 12 اکتوبر 1492 کے دن کو عالمی تاریخ کا ایک اہم ترین دن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہاماز کے جزیرے میں تین چھوٹے بحری جہازوں کی اولین آمد نے آنے والے عشروں اور صدیوں میں دنیا کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔
امریکہ آخر کس نے دریافت کیا؟
مریکہ میں کولمبس ڈے 1937 سے ہر سال منایا جاتا ہے۔ کولمبس نے آتے ہی اس سرزمین پر اسپین کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کولمبس نے اس خطے کو 1492 اور 1502 کے دوران کیے گئے اپنے چار سمندری اسفار کے ذریعے مغربی یورپ میں متعارف کرایا۔
یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ کولمبس نے مغربی یورپ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی اس نئے دریافت شدہ خطے میں آمد کی راہ ہموار کی۔ مغربی لوگوں کی اسی منتقلی کی نتیجے میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو سمیت کئی نئی قوموں کی داغ بیل ڈالی۔
لیکن یہ کہنا کہ کولمبس ہی نے امریکہ دریافت کیا، درست نہیں ہو گا کیوں کہ کولمبس کے آنے سے قبل ہی اس خطے میں بہت سے لوگ بستے تھے۔
امریکہ کی قدیم تاریخ کیا بتاتی ہے؟
یہ سوال تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو ہے کہ "پہلا امریکی" کن لوگوں کو کہا جائے؟
آثارِ قدیمہ سے متعلق جریدے 'امریکن آرکیالوجی' کے مدیر مائیکل باوایا کے مطابق پہلے امریکی غالباً برِ اعظم ایشیا سے 15 ہزار سال قبل یہاں آباد ہوئے تھے۔
وہ لوگ سمندر کے درمیان ابھرنے والی اس پتلے سے پگڈنڈی نما راستے کے ذریعے اس جگہ پہنچے تھے جو سائبیریا اور موجودہ امریکی ریاست الاسکا کو ملاتا تھا۔
پندرہ ہزار برس قبل سمندر کی سطح بہت کم تھی اور برِ اعظموں کے درمیان والی زمین سیکڑوں میل وسیع ہوا کرتی تھی۔
اس وقت یہ زمین ریاست الاسکا کے سی ورڈ نامی جزیرے سے ملتی تھی جہاں کوئی درخت اور سبزہ وغیرہ نہیں تھا۔ محض ایک یخ بستہ بنجر زمین کا ٹکڑا تھا۔ لیکن ان ناموافق حالات کے باوجود یہاں زندگی کے آثار موجود تھے۔
امریکہ کی قومی پارک سروس کے مطابق اس زمینی راستے نے برِ اعظموں کے درمیان نباتات اور حیوانات کے منتقل ہونے اور افزائش میں اہم کردار ادا کیا۔
جانوروں کی بہت سی اقسام اس راستے سے ایک برِ اعظم سے دوسرے برِ اعظم آتی جاتی تھیں۔ ان جانوروں میں اسکیمار بلی کی نسل، آرکٹک اونٹ، بھورے ریچھ، گھوڑے اور موس جیسے جانور شامل تھے۔
اس کے علاوہ پرندے، مچھلیاں اور دوسرے آبی جانوروں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی راہیں بنائیں اور یہ سفری راستے آج بھی موجود ہیں۔
آثارِ قدیمہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ نباتات اور حیوانات کے آنے کے بعد انسانوں نے شکار، خوراک اور پناہ کی تلاش میں یہاں آنے کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر اسی مقام سے وہ برِ اعظم امریکہ کے شمال، وسط اور جنوب میں پھیلتے چلے گئے۔
1970 تک امریکہ میں سب سے پہلے آنے والے لوگوں کو عام طور پر 'کلووس' کہا جاتا تھا۔ یہ نام میکسیکو میں کلووس کے مقام پر دریافت کی گئی 11 ہزار سال قدیم آبادی کے نام پر رکھا گیا تھا۔
ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ اس مقام پر آباد ہونے والے لوگ امریکی خطوں میں بسنے والے 80 فی صد قدیمی باشندوں کے اجداد تھے۔
لیکن اب تازہ ترین تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ان لوگوں سے پہلے بھی امریکی خطے میں لوگ آباد تھے۔ مائیکل باوایا کے مطابق ابھی تک ان قدیم لوگوں کو کوئی نام نہیں دیا گیا۔ ان لوگوں کے آثار امریکی ریاستوں ٹیکساس، ورجینیا اور جنوبی امریکہ میں پیرو اور چلی تک پائے جاتے ہیں۔ اور انہیں فی الحال کلووس سے پہلے کے لوگوں کا نام دیا گیا ہے۔
اب جدید ترین دریافتوں سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ امریکہ میں آج سے 20 ہزار سال پہلے بھی لوگ آباد تھے۔
یورپی باشندوں کی آمد
اب تک کی دریافتوں اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ کی دریافت کا سہرا کلووس اور ان سے پہلے سے آ کر یہاں بسنے والے لوگوں کے سر ہے۔ ان لوگوں کے جینز ابھی تک تمام مقامی امریکیوں میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن یہ لوگ امریکہ کے مغربی ساحل سے یہاں پہنچے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ مشرقی ساحل سے آنے والے لوگ یہاں کیسے آئے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کولمبس پہلے یورپی تھے جنہوں نے اس وقت کے سرسبز علاقے کو دریافت کیا؟
تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔
اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کینیڈا کی سرزمین پر آج سے 500 سال قبل یورپی لوگ آئے تھے جو کہ کولمبس کے یہاں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ ان لوگوں کو وائی کنگز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے آنے کے آثار کینیڈا کے جزیرے نیو فاؤنڈ لینڈ میں پائے جاتے ہیں۔ اس جزیرے کے میڈو نامی مقام پر لکڑی کی آٹھ عمارتیں اب اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی آثار میں شامل ہیں۔
آج یہ جگہ بنجر ہے۔ لیکن ایک ہزار سال پہلے اس مقام پر ہر طرف درخت ہی درخت تھے اور غالب امکان یہ ہے کہ اسے موسمِ سرما میں ایک عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
وائی کنگز یہاں اپنی کشتیوں کی مرمت کیا کرتے تھے اور سخت موسم میں اس جگہ کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ جگہ ایک مستقل رہائشی مقام تھا۔ لیکن یہ بات صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ کولمبس کے امریکہ آنے سے بہت پہلے سے موجود تھے۔
ایک آخری پر اسرار پہلو
امریکہ کی تجسس سے بھرپور دریافت کی کہانی میں ہر دل عزیز سبزی شکر قندی کا ذکر ضرور آتا ہے۔
شکر قندی جنوبی امریکہ کی مقامی سبزی ہے اور پولی نیشیا کے مقام پر شکر قندی آج سے ایک ہزار سال پہلے بھی خوراک کا اہم جزو تھی۔ سوال ہی ہے کہ شکر قندی یہال کیسے پہنچی؟
سائنس دانوں کے مطابق پولی نیشیا اور جنوبی امریکہ میں اُگنے والی شکر قندی کے ڈی این اے کا موازنہ بتاتا ہے کہ یا تو پولی نیشیا کے کچھ لوگ اسے جنوبی امریکہ سے یہاں لائے یا پھر جزیرے کے رہائشی بحرالکاہل کی سیاحت کے بعد اسے جنوبی افریقہ سے واپسی پر لائے۔
دونوں صورتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس وقت شمالی یورپ کے لوگ کینیڈا میں درخت کاٹ رہے تھے، عین اسی وقت کچھ لوگ پولی نیشیا میں جنوبی امریکہ سے لائی گئی شکر قندی کو پہلی بار کاشت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
2014 میں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پولی نیشیا کے راپا نوئی جزیرے پر رہنے والے مقامی لوگوں کی جینز میں امریکی جینز کی خاطر خواہ مقدار بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی جینز کے لوگ اور راپا نوئی کے مقامی لوگ 1280 کے قریب اکٹھے رہ رہے تھے۔
اس کے علاوہ اور بھی مفروضے ہیں۔ ایک برطانوی بحریہ کے سابق افسر گاوین مینزیز اس مفروضے پر زور دیتے ہیں کہ چین کے باشندوں نے جنوبی امریکہ کو 1421 میں اپنی کالونی بنالیا تھا۔
ایک اور مفروضے کے مطابق سابق کیمیا دان جان رسکیمپ کہتے ہیں کہ ریاست ایریزونا میں دریافت کیے گئے خاکے چین کے کرداروں سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کے مطابق چینی نسل کے لوگ تقریباً 1300 قبل مسیح میں ریاست ایریزونا میں موجود تھے۔
لیکن ان مفروضوں کو مکمل طور پر رد کردیا گیا ہے۔
ایک کثیرالثقافتی مرکز تحقیق اور تاریخ سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کئی صدیوں سے مختلف ثقافتوں کے ملاپ کی سرزمین رہی ہے۔
وائس آف امریکہ بھی امریکہ کی کہانی بیان کرنے کی کاوش کرتا ہے۔ اور اب یہ بات سب پر عیاں ہے کہ امریکہ صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے ملاپ کا مرکز رہا ہے۔ اور ایسا نیویارک کے مجسمۂ آزادی کے دنیا کے غریب، پسے اور سہمے ہوئے آزادی کے متلاشی لوگوں کو اپنی آغوش میں لینے سے صدیوں پہلے سے ہوتا آ رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی امریکہ دونوں ہی زمانہ قدیم سے ہی مختلف ثقافتوں کے گہوارے رہے ہیں۔ اور یہاں پرانے وقتوں سے لوگ رزق کی فراوانی، ترقی کے مواقع اور ایک بہتر زندگی کی جستجو میں معلوم تاریخ سے پہلے سے ہی آ کر بس رہے ہیں۔
اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آج بھی گزرے کل سے کہیں زیادہ مختلف نہیں ہے۔